Salahuddin Mahmood

صلاح الدین محمود

  • 1934 - 1998

صلاح الدین محمود کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    آوازوں سے جسم ہوا نم

    آوازوں سے جسم ہوا نم جیسے اک نا بینا سا غم ہونٹوں میں دریا کا قطرہ چادر میں خوش بو جیسا خم آئینوں کا رنگ ہمیشہ ایسا جیسے ہونٹوں میں دم کم ہوتی آنکھوں کے بھیتر بینائی کے شیتل سرگم سر اونچا اونچی تنہائی قدموں میں بیگانہ آدم دریا میں عریاں ہر لمحہ باہوں کے اندر بہتا یم نم ...

    مزید پڑھیے

    شجر کے بھیتر چھاتی چڑیا

    شجر کے بھیتر چھاتی چڑیا سمتوں کو دھراتی چڑیا ننھی نازک کالی رنگت شجر سفیدہ پاتی چڑیا گل ہوتی خوشبو کے تن میں بینائی کو لاتی چڑیا رات کے لازم اندھیارے میں سورج کو بہلاتی چڑیا کالی رنگت نیلی باتیں آنکھوں کو اجلاتی چڑیا ہونٹوں کی خوشبو کی جانب آتی اور شرماتی چڑیا بہتے پانی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کی چتون جیسے نین

    ہوا کی چتون جیسے نین ہونٹوں پہ شبنم سے بین لانبا جسم سمندر جیسا سورج جس کے بھیتر چین لوہو کی خوشبو میں جاگے ایک پرندے والی رین جل اک بہتا جل کے اندر ہونٹوں کے طائر بے چین ہوا پرندے کے قد جتنی شجر سیاہ ہریالے عین نین کٹوروں جیسی شبنم دریا اجیالے بسے نین سمتوں کے مہتاب بدن ...

    مزید پڑھیے

    ہوا چلی ننگی اجیالی

    ہوا چلی ننگی اجیالی طائر اگتے ڈالی ڈالی ایک ورق جیسی تنہائی نیلی سبزک کالی کالی میں والی ساکت ہر بن کا مجھ میں ساکت قدموں والی جلے جلائی سمتوں کے تن تاروں کی بجھتی رکھوالی آنکھوں میں نا بینا تکتی راتوں نے بینائی پالی اسپ سیہ اور چٹیل میداں جلتا ایک شجر اب خالی

    مزید پڑھیے

2 نظم (Nazm)

    دو سانسوں کی گہرائی میں

    دو سانسوں کی گہرائی میں جہاں لہو بے حد بھیتر کے، بالکل ساکت میدانوں میں چاند کی ہر رنگت بہتا ہے وہاں پلی اک ننگی ناری بے حد بھیتر کی رکھوالی چاندی جیسے لہو کو اپنے بدن میں بھی تنہا پاتی ہے، شنوائی سے دور ہمیشہ شنوائی کا لب ہوتا ہے ننگی ناری دو سانسوں کے بے حد بھیتر سانس کے بن ...

    مزید پڑھیے

    کواڑ

    سونا سو کر نیند میں کھونا بند کرو یہ بند کرو اپنے بچپن کو بات بات پر غیروں کی شنوائی میں پھر بونا بند کرو تم لوٹ کبھی نہ پاؤ گے اس آسمان کی چھاؤں میں تم واپس کبھی نہ جاؤ گے اپنی شنوائی بینائی کو لمس میں آتی تنہائی کو پھر سے کبھی نہ پاؤ گے بند کرو تم گزرے اس آنگن کی ٹھنڈک ان تلووں ...

    مزید پڑھیے