Sakhi Lakhnvi

سخی لکھنوی

  • 1813 - 1876

سخی لکھنوی کی غزل

    دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا

    دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا یا جگر بھی ہے آپ کے ڈھب کا قیس و فرہاد سے میں ہوں واقف ہو چکا ہے مقابلہ سب کا کھائی ہے اک نئی مٹھائی آج بوسہ پایا ہے یار کے لب کا مے کدہ میں شراب پیتے ہیں یہ پتا ہے ہمارے مشرب کا شیعہ سنی میں تو بکھیڑے ہیں نام لوں کس کے آگے مذہب کا ملک الموت سے کہو پھر ...

    مزید پڑھیے

    گھر میں ساقیٔ مست کے چل کے

    گھر میں ساقیٔ مست کے چل کے آج ساغر شراب کا چھلکے سوگ میں میرے مہندی کے بدلے لال کرتے ہیں ہاتھ مل مل کے چھوڑیئے اب طواف کعبہ کا دیر کی گرد ڈھونڈھئے چل کے دل ہے پتھر سا ان کا بھاری ہے ورنہ ہیں کان کے بہت ہلکے تلوا کھجلا رہا ہے پھر میرا یاد کرتے ہیں خار جنگل کے آج مردہ سخیؔ کا ...

    مزید پڑھیے

    نسبت وہی ماہ آسماں سے

    نسبت وہی ماہ آسماں سے لائیں تشبیہ رخ کہاں سے مسی کی صفت بیاں نہ ہوگی سوسن بھی کہے جو سو زباں سے تشبیہ جو مانگ کی نہ ہاتھ آئے لاؤں میں مانگ کہکشاں سے سودا ہے جو بلبلوں کو گل کا تنکے چن لائیں آشیاں سے یہ حارج شب وہ مانع روز درباں سے لڑوں کہ پاسباں سے جیتیں گے نہ ہم سے بازیٔ ...

    مزید پڑھیے

    رخ روشن دکھائیے صاحب

    رخ روشن دکھائیے صاحب شمع کو کچھ جلائیے صاحب روح ہو کر سمائیے صاحب میرے قالب میں آئیے صاحب شیخ جی ہو تمہیں سرود حرام آپ اپنی نہ گائیے صاحب وصل کی شب قریب آئی ہے اب نہ مہندی لگائیے صاحب خون عشاق ہے معانی میں شوق سے پان کھائیے صاحب میں تجلی طور دیکھوں گا آج کوٹھے پہ آئیے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4