Sakhi Lakhnvi

سخی لکھنوی

  • 1813 - 1876

سخی لکھنوی کی غزل

    عشق ہے یار کا خدا حافظ

    عشق ہے یار کا خدا حافظ امر دشوار کا خدا حافظ پیچ مجھ پر پڑے جو پڑنا ہو زلف خم دار کا خدا حافظ سر جو ٹکراتا ہوں تو کہتے ہیں میری دیوار کا خدا حافظ سرفروشوں کی چشم بد نہ پڑے ان کی تلوار کا خدا حافظ دفن ہم ہو چکے تو کہتے ہیں اس گنہ گار کا خدا حافظ دشت چھوٹا تو آبلوں نے کہا یاں کے ...

    مزید پڑھیے

    دولہن بھی اگر بن کے آئے گی رات

    دولہن بھی اگر بن کے آئے گی رات ہمیں بے تمہارے نہ بھائے گی رات ہمیں ہجر میں خوں رلائے گی رات ہمارے لہو میں نہائے گی رات بہت خواب غفلت میں دن چڑھ گیا اٹھو سونے والو پھر آئے گی رات ہم اس سے زیادہ سیہ بخت ہیں ہمیں تیرگی کیا دکھائے گی رات نہ ٹالے ٹلے گا یہ روز فراق قسم آج آنے کے ...

    مزید پڑھیے

    یوں پریشاں کبھی ہم بھی تو نہ تھے

    یوں پریشاں کبھی ہم بھی تو نہ تھے ایسے اس زلف میں خم بھی تو نہ تھے سیر گلشن کو گئے تھے جب آپ یاد تو کیجئے ہم بھی تو نہ تھے ہم سے بے جرم وہ کوچہ چھوٹا شائق باغ ارم بھی تو نہ تھے رحم کرتا نہ فلک کیا کرتا ہم سزا وار ستم بھی تو نہ تھے رہتے کعبہ میں اکیلے کیا ہم دل لگانے کو صنم بھی تو نہ ...

    مزید پڑھیے

    سخیؔ سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ

    سخیؔ سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ اجی کچھ خیر بھی ہے ہیں کدھر آپ وہ عاشق ہیں کہ مرنے پر ہمارے کریں گے یاد ہم کو عمر بھر آپ پری سمجھیں پری، حوریں کہیں حور ہوئے کس نور کے پیدا بشر آپ نہ عاشق ہیں زمانہ میں نہ معشوق ادھر ہم رہ گئے ہیں اور ادھر آپ دکھائیں گے ہم اپنی لاغری بھی ابھی تو ...

    مزید پڑھیے

    اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں

    اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں سچ ہے شاعر بھی ہوا باندھتے ہیں پھر سر دست مرا خوں ہوگا پھر وہ ہاتھوں میں حنا باندھتے ہیں گٹھری پھولوں کی وہ ہو جاتی ہے جن میں وہ اپنی قبا باندھتے ہیں اجی دیکھیں دل عاشق تو نہیں آپ آنچل میں یہ کیا باندھتے ہیں اے سخیؔ آج تو کچھ خیر نہیں وہ کمر ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے

    ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے یا کہ ابرو کوئی نقاب میں ہے رنگت اس رخ کی گل نے پائی ہے اور پسینے کی بو گلاب میں ہے آج ساقی شکار کھیلے گا بط مے کانسۂ شراب میں ہے طول روز فراق کہتا ہے حشر کا روز کس حساب میں ہے شربت قند کی سی شیرینی دہن یار کے لعاب میں ہے شان سے کچھ بگڑ گئی شاید زلف شب ...

    مزید پڑھیے

    جی جائے مگر نہ وہ پری جائے

    جی جائے مگر نہ وہ پری جائے یا رب نہ ہماری دل لگی جائے دل ہجر میں جائے یا کہ جی جائے جس کا جی چاہے وہ ابھی جائے اس گل کا نہ وصل ہو نہ جی جائے کیونکہ میرے دل کی بے کلی جائے تم لعل لب اپنے گر دکھاؤ پھر سوئے یمن نہ جوہری جائے اس غنچہ دہن کی بو نہ لائے دکھلائے نہ منہ صبا چلی ...

    مزید پڑھیے

    نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات

    نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات نہ کھلواؤ کہ چھوٹا منہ بڑی بات سنو تو گوہر دنداں کی تعریف ابھی ہو جائے موتی کی لڑی بات بڑے اندھیر کی تزئین ہے آج نہ ہونے دے گی مسی کی دھڑی بات جہاں اغیار ان کے پاس بیٹھے وہیں بس ہو گئی کوئی گھڑی بات پیام وصل پر وہ ہو گئے ترش غضب آیا کھٹائی میں پڑی ...

    مزید پڑھیے

    ان کو نفرت اسے کیا کہتے ہیں

    ان کو نفرت اسے کیا کہتے ہیں ہم کو رغبت اسے کیا کہتے ہیں نقد دل لے کے ہمارا نہ دیا خود بدولت اسے کیا کہتے ہیں روز فرقت بھی تو ہے طول بہت اے قیامت اسے کیا کہتے ہیں ہر پری رو پہ تجھے آ جانا اے طبیعت اسے کیا کہتے ہیں غیر کو بزم میں بٹھلا لینا ہم کو رخصت اسے کیا کہتے ہیں ایک تو عشق ...

    مزید پڑھیے

    گفتگو ہو دبی زبان بہت

    گفتگو ہو دبی زبان بہت ہیں لگائے رقیب کان بہت کیوں نہ گردش اٹھائے جان بہت ایک میں اور آسمان بہت گالیوں کی روش کو کم کیجے آپ کی چلتی ہے زبان بہت دل کلیجہ دماغ سینہ و چشم ان کے رہنے کے ہیں مکان بہت ماہ سا رخ سخیؔ کو دکھلایا آج تو تھے وہ مہربان بہت

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4