Sakhi Lakhnvi

سخی لکھنوی

  • 1813 - 1876

سخی لکھنوی کے تمام مواد

34 غزل (Ghazal)

    پھر الجھتے ہیں وہ گیسو کی طرح

    پھر الجھتے ہیں وہ گیسو کی طرح پھر کجی پر ہیں وہ ابرو کی طرح شہر وحشت میں کہاں گھر کیسا دشت میں رہتے ہیں آہو کی طرح حسن اور عشق کو آؤ تولیں دونوں آنکھوں سے ترازو کی طرح مجھ کو آنکھوں میں جگہ دو چندے پھر گرا دیجیو آنسو کی طرح نہ کہوں گا کہ سنوارو زلفیں پھر الجھ جائیں گے گیسو کی ...

    مزید پڑھیے

    دل اسے دے دیا سخیؔ ہی تو ہے

    دل اسے دے دیا سخیؔ ہی تو ہے مرحبا پرورش علی ہی تو ہے دل دیا ہے دلاوری ہی تو ہے جان بھی اس کو دیں گے جی ہی تو ہے کیوں حسینوں کی آنکھ سے نہ لڑے میری پتلی کی مردمی ہی تو ہے نہ ہوئی ہم سے عمر بھر سیدھی ابروئے یار کی کجی ہی تو ہے عارض اس کا نہ دیکھوں مر جاؤں زندگی میری عارضی ہی تو ...

    مزید پڑھیے

    زلف شب رنگ جو بنائی ہے

    زلف شب رنگ جو بنائی ہے ان دنوں شانے کی بن آئی ہے حیف ثابت ہے جیب نے دامن اور جنون میں بہار آئی ہے کہے پروانہ شمع رو تجھ کو اس کی آنکھوں میں چربی چھائی ہے میری ان کی بگاڑ ہونے سے خوب اغیار کی بن آئی ہے پانی مانگے گا کیا دہان زخم تیغ اک آب دار کہانی ہے کلمہ ان بتوں نے ...

    مزید پڑھیے

    پہلو میں بیٹھ کر وہ پاتے کیا

    پہلو میں بیٹھ کر وہ پاتے کیا دل تو تھا ہی نہیں چراتے کیا ہجر میں غم بھی ایک نعمت ہے یہ نہ ہوتا تو آج کھاتے کیا مرغ دل ہی کا کچھ رہا مذکورہ اور بے پر کی واں اڑاتے کیا راہ کی چھیڑ چھاڑ خوب نہیں وہ بگڑتا تو ہم بناتے کیا صدمہ حاصل ہوا الم لائے اور کوچہ سے اس کے لاتے کیا شیخ جی کہتے ...

    مزید پڑھیے

    تم اگر دو نہ پیرہن اپنا

    تم اگر دو نہ پیرہن اپنا چرخ سے مانگ لوں کفن اپنا آگے کرتے تھے اس طرح پامال یاد تو کیجئے چلن اپنا آج ہم جان دینے آئے ہیں کچھ دکھاتے ہو بانکپن اپنا شانہ زلفوں میں واں نہیں الجھا سانپ دکھلا رہا ہے پھن اپنا یاد رکھیو ہماری پامالی بھولیو مت کبھی چلن اپنا یا کہو ہم کنویں میں ڈوب ...

    مزید پڑھیے

تمام