Saifi Premi

سیفی پریمی

  • 1913 - 1995

سیفی پریمی کی غزل

    اجنبی دل کی عجب طرز بیاں تھی پہلے

    اجنبی دل کی عجب طرز بیاں تھی پہلے لب تھی تصویر نگاہوں میں زباں تھی پہلے ہم نے تا صبح جلائے ہیں وفاؤں کے چراغ تیرے کوچہ میں بھی قدر دل و جاں تھی پہلے آج ہر گام پہ زنجیر ہے ہر بات پہ دار اتنی مقبول کہیں عمر رواں تھی پہلے دیر و کعبہ سے نکل آئے تو آرام ملا ہم کو بھی اک خلش سود و زیاں ...

    مزید پڑھیے

    دکھ بھرے دل جنہیں حاصل نہیں ہونے پاتے

    دکھ بھرے دل جنہیں حاصل نہیں ہونے پاتے وہ تری بزم کے قابل نہیں ہونے پاتے دور ہوتے ہیں تو دل اور مہک اٹھتے ہیں فاصلے عشق میں حائل نہیں ہونے پاتے ہم کہ طوفان شب تار سے بچ نکلے ہیں پھر بھی آسودۂ ساحل نہیں ہونے پاتے جادۂ عشق میں دنیا نے پکارا ہے ہمیں پھر بھی ہم گمرۂ منزل نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    دل بیتاب پر ڈالا ہے تیری یاد نے آنچل (ردیف .. ی)

    دل بیتاب پر ڈالا ہے تیری یاد نے آنچل تری بخشی ہوئی اب رات طولانی نہیں ہوگی محبت میں ہم اپنے دل کو ویراں کر کے بیٹھے ہیں اب اپنی زندگی میں اور ویرانی نہیں ہوگی یہ زلفیں خم بہ خم یہ جسم بادہ رس یہ پیراہن مرے ناصح یہاں دل کی نگہبانی نہیں ہوگی تمہارے سامنے ہم درد دل بھی لے کے آئے ...

    مزید پڑھیے

    وہ عارض گلابی وہ گیسو گھنیرے

    وہ عارض گلابی وہ گیسو گھنیرے اسی سمت ہیں دیدہ و دل کے پھیرے اجالے کی روداد وہ دل لکھے گا کہ جس دل سے پسپا ہوئے ہیں اندھیرے بڑا فرق ہے تیرے میرے جہاں میں ادھر ظلمت شب ادھر ہیں سویرے کسی سے کبھی آپ بیتی نہ کہنا امڈ آئیں گے ہر طرف سے اندھیرے خلوص دل و جاں مری کم نگاہی فریب مسلسل ...

    مزید پڑھیے

    ترے جمال کی زینت مری طلب سے ہے

    ترے جمال کی زینت مری طلب سے ہے مری حیات میں خوشبو ترے سبب سے ہے نمود عشق کرم سے کبھی غضب سے ہے خمار چشم سے ہے شعلہ ہائے لب سے ہے کسے دماغ سر راہ ان سے بات کرے دلوں میں ایک خلش خوبیٔ ادب سے ہے قدم رکے ہیں کسی شوخ اجنبی کے لئے یہ ذوق دید بھی کچھ تیرے زلف و لب سے ہے جنون عشق سے اظہار ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو ہے شرارت ہے رنگین جوانی ہے

    خوشبو ہے شرارت ہے رنگین جوانی ہے یادوں کے پرستاں میں شیشے کی کہانی ہے ماضی کی حقیقت ہے اس دور میں افسانہ سیتا بھی کہانی ہے مریم بھی کہانی ہے دشمن سے خطر والو لمحوں پہ نظر رکھنا ہر لمحۂ ہستی بھی تلوار کا پانی ہے ہونٹوں کا مہک اٹھنا آنچل کا ڈھلک جانا ان پاک گناہوں کی تاریخ پرانی ...

    مزید پڑھیے

    خواہش سے کہیں کوئی ماحول بدلتا ہے

    خواہش سے کہیں کوئی ماحول بدلتا ہے دل شمع کا جلتا ہے تب موم پگھلتا ہے دیکھیں تو چراغوں کو اب کون بجھائے گا طاقوں میں لہو اپنا ہر رات کو جلتا ہے سوچا ہے کہ کچھ دن کو بیگانہ ہی بن جائیں ہم اپنا جسے سمجھیں بیگانہ نکلتا ہے اب سخت ضرورت ہے مے خانہ بدلنے کی ہر لب کے لیے ساقی پیمانہ ...

    مزید پڑھیے