ترے جمال کی زینت مری طلب سے ہے

ترے جمال کی زینت مری طلب سے ہے
مری حیات میں خوشبو ترے سبب سے ہے


نمود عشق کرم سے کبھی غضب سے ہے
خمار چشم سے ہے شعلہ ہائے لب سے ہے


کسے دماغ سر راہ ان سے بات کرے
دلوں میں ایک خلش خوبیٔ ادب سے ہے


قدم رکے ہیں کسی شوخ اجنبی کے لئے
یہ ذوق دید بھی کچھ تیرے زلف و لب سے ہے


جنون عشق سے اظہار عاشقی معلوم
کسے خبر کہ کوئی محو ناز کب سے ہے


یہ احتیاط محبت کہ اس صنم کے سوا
جہاں میں رسم پیام و سلام سب سے ہے


ہم اہل دل ہیں بہت بے نیاز غم سیفیؔ
یہ تاب زیست اسی محفل طرب سے ہے