مرحلے زیست کے دشوار ابھی ہو جائیں
مرحلے زیست کے دشوار ابھی ہو جائیں
تاکہ ہم جینے کو تیار ابھی ہو جائیں
یہ جو کچھ لوگ مرے چار طرف ہیں ہر وقت
یار ہو جائیں کہ اغیار ابھی ہو جائیں
جس کی تعبیر ہے اک خواب میں چلتے رہنا
کیوں نہ اس خواب سے بیدار ابھی ہو جائیں
جانے پھر کوئی ضرورت بھی رہے یا نہ رہے
جن کو ہونا ہے وہ غم خوار ابھی ہو جائیں
کوئی تصویر سجا لے گا تو کوئی تحریر
کیوں نہ ہم نقش بہ دیوار ابھی ہو جائیں
زندگی خود کو بچانا ہے کہ جاں دینا ہے
فیصلے یہ بھی ہیں کہ وار ابھی ہو جائیں
ایک لمحے میں بدل سکتے ہیں حالات سحرؔ
آپ اگر شامل دربار ابھی ہو جائیں