Saeeduddin

سعید الدین

سعید الدین کی نظم

    کہانیاں

    یہاں ٹھیک اس جگہ جہاں ایک چٹان ایک گہری کھائی پر جھکی ہوئی ہے یہاں ایک چھتنار درخت تھا وہ پرندے یہاں آتے تھے جن کے بارے میں لوگوں میں عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہیں اس چٹان کے پہلو میں ایک آتش کدہ ہے جس میں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے جس سے اس کے چاروں اور بیٹھے لوگوں کے چہرے اس قدر روشن ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میری دنیا اتنی چھوٹی ہے کہ اگر پیر پھیلاؤں تو میرے پیر افق سے باہر چلے جائیں بہت کوشش کے باوجود مجھے وسعت نہ مل سکی میں سو گیا خوابوں نے میرے افق دور دور تک پھیلا دیے آسمان کو بہت اونچا اور زمین کو بہت کشادہ کر دیا جب میری آنکھ کھلی میری ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں

    مزید پڑھیے

    شور کم کرو

    شور کم کرو آہستہ بولو تاکہ تمہاری آواز کم سے کم ان تک تو پہنچ جائے جو تمہیں سننا چاہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    نظم

    گھر سے آفس جاتے ہوئے میں روز سڑک کے دائیں بائیں درختوں کو گنتا ہوا چلتا ہوں ہمیشہ گنے ہوئے درختوں کی تعداد مختلف ہوتی ہے کبھی دو سو بیس کبھی تین سو گیارہ کبھی کبھی تو درختوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے کہ مجھے گزشتہ دن کے اعداد و شمار پر شک ہونے لگتا ہے پر ایک دن پتا چلا راستے کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک درخت کی دہشت

    میں کلھاڑے سے نہیں ڈرا نہ کبھی آرے سے میں تو خود کلھاڑے کے پھل اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں میں چاہتا ہوں کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے میرے دل تک پہنچے کوئی محتاط آری کوئی مشاق ہاتھ مجھے تراش کر ملاحوں کے لئے کشتیاں اور مکتب کے بچوں کے لئے تختیاں بنائے اس سے پہلے کہ میری جڑیں بوڑھی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    ''مشکیزے کا پانی اسی ریت پر ڈال دو اور ننگے پاؤں میرے پیچھے چلے آؤ'' میں نے سارا پانی ریت پر گرا دیا اور ننگے پاؤں اس کے پیچھے ہو لیا کئی صحرا ہم نے عبور کر ڈالے زہریلے کانٹوں اور زہریلے کیڑوں پر پاؤں رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں تو صحرا میں اکیلا ہی چلا ...

    مزید پڑھیے

    ریت

    ریت پر سویا ہوا ہے آدمی اس میں سرے سے کوئی جنبش ہی نہیں مجھے ہول ہوتا ہے میں اس کے پاس جاتا ہوں وہاں ریت کا ایک ڈھیر ہوتا ہے میں اس ڈھیر کو ہاتھ سے چھوتا ہوں مرے پنجے کا نشان ریت پر بن جاتا ہے پھر یہ نشان پانی سے نکلی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپنے لگتا ہے اور کچھ دیر بعد ساکت ہو جاتا ...

    مزید پڑھیے

    دستانے

    میں چیختا ہوں میں نے آج تک کسی چیز کو نہیں چھوا نہ کسی آواز کو نہ دیوار کو نہ تمہارے بدن کو میں تو زندگی بھر اپنے ہاتھوں سے دستانے نہیں اتار سکا

    مزید پڑھیے

    اجازت

    وہ کہتے ہیں میں کبھی زندہ نہیں تھا اس لیے نہ وہ میری ہنسی کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں نہ آنسوؤں کے بارے میں یا یہ کہ جب میں چلتا تھا تو میرے پاؤں زمیں پر ٹھیک طرح سے پڑتے بھی تھے یا نہیں انہوں نے ہمیشہ مجھے بے جان ہی پایا ایسے کہ میری نبض رکی ہوئی تھی دل ساکت اور جسم سیاہ پڑ چکا ...

    مزید پڑھیے

    نیا فریم

    سفید کاغذ پیلا پڑ چکا ہے اور عبارت دھندلی ہو گئی ہے جلد ادھڑ چکی ہے اسے لکھنے والا مر گیا ہے آثار قدیمہ کے ماہرین اور زبانوں کے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں یہ کتاب کسی مردہ زبان میں لکھی گئی ہے جو اب زمین کے کسی خطے میں بولی یا سمجھتی نہیں جاتی رات کے کسی پہر آثار قدیمہ کے ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3