Saeed Soharwardi

سعید سہروردی

سعید سہروردی کی غزل

    کل جو پیچھے چھوٹ گیا

    کل جو پیچھے چھوٹ گیا سپنے میرے لوٹ گیا آنکھ سے کوئی آنسو ٹپکا یا کوئی چھالا پھوٹ گیا ہونٹ تک اپنے آتے آتے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ گیا جس سے دل کی آس لگی تھی وہ تارا بھی ٹوٹ گیا چارہ گری بھی کام نہ آئی زخم پہ نشتر ٹوٹ گیا

    مزید پڑھیے

    جراحتوں کی ملاحتوں سے متاع دل خوب رو کریں گے

    جراحتوں کی ملاحتوں سے متاع دل خوب رو کریں گے ہم اپنے دامن کی دھجیوں سے ہزار داماں رفو کریں گے شعاع برق و شرار لے کر جمال رنگ بہار لے کر نگار فردا کو حسن دیں گے بشر کو ہم سرخ رو کریں گے ہمارا غم ہے وہ بار ہستی جسے ملائک اٹھا نہ پائیں جہاں پہ چھلکے ہمارے ساغر فرشتے اس جا وضو کریں ...

    مزید پڑھیے

    در پہ کس کے صدا کرے کوئی

    در پہ کس کے صدا کرے کوئی روشنی لے کے کیا کرے کوئی حسرتوں کا کفن بھی بھاری ہے کس کی حاجت روا کرے کوئی جب دواؤں میں مرض پلتے ہیں مرض کیسے جدا کرے کوئی جن سے آتی ہے بو غلامی کی ان کتابوں کو کیا کرے کوئی قید ہیں راکھ میں جو انگارے ان کو چھیڑے رہا کرے کوئی

    مزید پڑھیے

    میری فریاد کے شعلوں کو عنایت سمجھو

    میری فریاد کے شعلوں کو عنایت سمجھو میرے ہر زخم کو الفت کی روایت سمجھو ایک مجبور تمنا کی گراں بار تھکن میں نے کب تم سے کہا یہ اسے الفت سمجھو لذت غم میں نہیں خون تمنا کا علاج مری ہر ٹیس کو خاموش بغاوت سمجھو یہ گراں باریٔ احساس مری مشعل ہے میری فریاد کو تم ایک ہدایت سمجھو ایک ...

    مزید پڑھیے