مرحلہ در مرحلہ یوں مجھ کو سر اس نے کیا
مرحلہ در مرحلہ یوں مجھ کو سر اس نے کیا میری نظروں سے گزر کر دل میں گھر اس نے کیا چھاؤں ہاتھ آئی نہیں یوں ہی گھنے اشجار کی چلچلاتی دھوپ میں بھی طے سفر اس نے کیا ہر قدم پر ساتھ میرے لغزشوں کی بھیڑ تھی چشم بالغ سے انہیں صرف نظر اس نے کیا کہہ رہے ہیں کالے گہرے آنکھ کے وہ دائرے زہر پی ...