دل میں کیوں ہیں تلخیاں ہم کیا کہیں

دل میں کیوں ہیں تلخیاں ہم کیا کہیں
داستان جسم و جاں ہم کیا کہیں


رہزنوں کی انگلیوں کو تھام کر
چل رہا ہے کارواں ہم کیا کہیں


پھوس کا تھا بچ نہ پایا آگ سے
جل گیا وہ جو مکاں ہم کیا کہیں


ملتے کس سے پوچھتے بھی کس سے ہم
سامنے تھا بس دھواں ہم کیا کہیں


تم شکایت لائے کس کی اپنے پاس
وہ تو ہے اک بے زباں ہم کیا کہیں


ایک عرصے سے ہمارے دل میں بھی
راز اس کا ہے نہاں ہم کیا کہیں


ڈھونڈتے ہیں زندگی کو وہ نظرؔ
ہو گئی گم وہ کہاں ہم کیا کہیں