مرحلہ در مرحلہ یوں مجھ کو سر اس نے کیا

مرحلہ در مرحلہ یوں مجھ کو سر اس نے کیا
میری نظروں سے گزر کر دل میں گھر اس نے کیا


چھاؤں ہاتھ آئی نہیں یوں ہی گھنے اشجار کی
چلچلاتی دھوپ میں بھی طے سفر اس نے کیا


ہر قدم پر ساتھ میرے لغزشوں کی بھیڑ تھی
چشم بالغ سے انہیں صرف نظر اس نے کیا


کہہ رہے ہیں کالے گہرے آنکھ کے وہ دائرے
زہر پی کر ظلمت شب کو سحر اس نے کیا


قتل خنجر سے اگر کرتا نہ کرتا میں گلہ
مصلحت کی دھار سے خون جگر اس نے کیا


خون دل سے زخم جاں کو سینچنا آساں نہ تھا
کام ویسے تھا بہت مشکل مگر اس نے کیا


ایک وہ مجھ کو زمیں کا چاند کہتا ہے نظرؔ
اس کا احساں ہے کہ ذرے کو قمر اس نے کیا