Sadaf Jafri

صدف جعفری

صدف جعفری کی نظم

    ضد

    عجب سی دیکھو فضا بنی ہے عداوتوں سے بھری ہے دنیا ہماری خوشیوں سے غم ہو تم کو خوشی ہو ہم کو جو غم ہو تم کو اندھیرے رستے میں ہم جو بھٹکیں سجاؤ محفل چراغوں سے تم ہوں نرم کرنیں عزیز تم کو جو صبح کی ہم پکاریں اس دم اجالا دن کا جلاتا آنکھیں فلک کے تاروں کا ذکر جب ہو تو اٹھ کے دیکھیں ...

    مزید پڑھیے

    مسکراتا ہے کنول

    آج مانا درد دل بے حد بڑا ہے رات کو شکوہ ہے دن سے صبح کا غم بھی سوا ہے تم مگر اتنا تو سوچو زندگی کب ایک جیسے راستے پر چل سکی ہے جو چلے گی آب دیدہ منظروں سے قہقہے بھی پھوٹتے ہیں اور زمیں کو جھک کے اونچے آسماں بھی چومتے ہیں اک ذرا رک کر تو دیکھو حوصلہ کر کے تو دیکھو کس قدر کیچڑ میں رہ ...

    مزید پڑھیے

    گاندھی جی اب بھی کہتے ہیں

    تتلی جگنو شبنم گل نظروں کے سب دھوکے ہیں جگ مگ کرتے موسم کے سارے منظر جھوٹے ہیں اندر سے سب ٹوٹے ہیں پگڈنڈی پر جیون کی رقص و سرود و نکہت بن کر خوشیوں کا کچھ غازہ مل کر ہنستا ہنستا چہرہ لے کر اک راہی جب چلتا ہے پل پل اپنے قدموں میں کنکر پتھر سہتا ہے کانٹوں کو گل کہتا ہے لیکن گاندھی جی ...

    مزید پڑھیے