گاندھی جی اب بھی کہتے ہیں
تتلی
جگنو
شبنم
گل
نظروں کے سب دھوکے ہیں
جگ مگ کرتے موسم کے
سارے منظر جھوٹے ہیں
اندر سے سب ٹوٹے ہیں
پگڈنڈی پر جیون کی
رقص و سرود و نکہت بن کر
خوشیوں کا کچھ غازہ مل کر
ہنستا ہنستا چہرہ لے کر
اک راہی جب چلتا ہے
پل پل اپنے قدموں میں
کنکر پتھر سہتا ہے
کانٹوں کو گل کہتا ہے
لیکن گاندھی جی اکثر
میرے سر پر
تھپکی شفقت کی دے کر
سرگوشی میں کہتے ہیں
بیٹی
بدلے موسم میں
الٹے پلٹے لمحوں میں
روشن روشن لفظوں سے
خوشبو دیتے لہجوں سے
میٹھی میٹھی نظروں سے
مفلس بیکل دنیا کو
ہرگز جنت مت کہنا
سچ کو جھوٹا مت کرنا
ہاں جی بیٹی ممکن ہو تو
قدموں سے تم جیون کے
کنکر پتھر کانٹوں کو
چپکے چپکے چنتی رہنا
اور چاہت الفت راحت کی
انمٹ دولت دیتی رہنا
قرآں گیتا پڑھتی رہنا
انساں بن کر جیتی رہنا
سچ کو روشن کرتی رہنا