ضد
عجب سی دیکھو فضا بنی ہے
عداوتوں سے بھری ہے دنیا
ہماری خوشیوں سے غم ہو تم کو
خوشی ہو ہم کو جو غم ہو تم کو
اندھیرے رستے میں ہم جو بھٹکیں
سجاؤ محفل چراغوں سے تم
ہوں نرم کرنیں عزیز تم کو
جو صبح کی
ہم پکاریں اس دم
اجالا دن کا جلاتا آنکھیں
فلک کے تاروں کا ذکر جب ہو
تو اٹھ کے دیکھیں اندھیری راتیں
ہو آبی قطرہ سمندروں سا
ہمارے من میں
سمندروں کو بتاؤ قطرہ
سہج سے پھر تم
یہ کیسی ضد ہے
یہ دشمنی ہے تمہاری کیسی
ہماری کیسی
ہماری دنیا تمہاری منزل
تمہاری دنیا ہماری منزل
نہ جانے کیسے سمجھ سکیں گے
یہ بات ہم تم