ہجر سمندر نہیں وصل کنارہ نہیں

ہجر سمندر نہیں وصل کنارہ نہیں
کون ہے کس موڑ پر کوئی اشارہ نہیں


اس سے بچھڑ کے اگر ہم ہیں تماشا تو کیا
اس کے سوا تو کوئی محو نظارہ نہیں


چھوڑ چلے ہیں یہاں عبرت آئندگاں
ہم بھی تو اس کے نہیں وہ جو ہمارا نہیں


آج ہی درپیش تھا ہم کو سفر رات کا
آج ہی افلاک پر کوئی ستارہ نہیں