سبین علی کی نظم

    نظم

    کئی بار لکھنا اتنا درد کیوں دیتا ہے حرف کیوں جڑتے ہیں لفظ کیوں بنتے ہیں اور اس بننے بگڑنے میں ہمارے وجود کے سنگریزے ریزہ ریزہ ہو کر کیوں شامل ہو جاتے ہیں کیا شہرت کی سرمستی اس درد کا مداوا کرتی ہے یا کسی کردار کے ہونٹوں پر آئی مسکان لبوں پہ دم توڑتی دعا مصنف کی ہم رکاب بنتی ہے حرف ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں گروی رکھی گئی آنکھوں میں بسا خواب ہوں لا محدود سمندر میں تیرتے جزیروں کا جہاں مہاجر پرندے گھڑی بھر بسیرا کرتے ہیں نیلگوں پانیوں کا ساحلوں کے کنارے چمکتی ریت کا وہ خواب جو بہہ نکلتا ہے نمکین قطرے کی صورت میں وہ آزاد روح ہوں جو غلام جسموں کے اندر تڑپتی ہے بھٹکتی پھرتی ہے درد ...

    مزید پڑھیے

    کی بورڈ ایکٹیوسٹ

    جنگوں خون آشامیوں کی گرد چہروں پر اوڑھے حیراں لب بستہ بچو ساحل پر سیپ کی مانند اوندھے منہ بکھرے موتی جیسے بچو بے لباس سڑکوں پر بھاگتے دہشت زدہ سوکھے بچو خدا کو اس دنیا کی شکایت لگانے والے روتے بلکتے جاں سے گزرتے بچو تار تار پیراہن جسم دریدہ روح راکھ بدن عظیم انسانی تہذیب کے ملبے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    دھول مٹی بارود کی مہک بے گور و کفن لاشوں کی بساند میں پتھروں کے ملبے تلے اجڑے باغوں میں خون آشام شکاری اپنی فتح کے جھنڈے گاڑیں گے جہاں نہ کوئی ان پر پھول برسانے والا ہوگا اور نہ کوئی دست دعا اٹھے گا

    مزید پڑھیے

    خواب کی شیلف پر دھری نظم

    اگر سمندر مجھے راستہ دیتا تو سفر کرتی اس قندیل کے ساتھ جو شام کا ملگجا پھیلتے ہی ساحل پر روشن ہو جاتی ہے اڑتی ققنس کے ہم رکاب افق کی مسافتوں میں تیرتی مچھلیوں کے سنگ کھوجتی ریگ زاروں میں نیلگوں پانیوں کو سرمئی پہاڑوں میں جادوئی سرنگوں کو لیکن میرے سرہانے آدھے پونے خواب پڑے ...

    مزید پڑھیے