نظم

میں گروی رکھی گئی آنکھوں میں
بسا خواب ہوں
لا محدود سمندر میں تیرتے
جزیروں کا
جہاں مہاجر پرندے گھڑی بھر
بسیرا کرتے ہیں
نیلگوں پانیوں کا
ساحلوں کے کنارے
چمکتی ریت کا
وہ خواب
جو بہہ نکلتا ہے
نمکین قطرے کی صورت
میں وہ آزاد روح ہوں
جو غلام جسموں کے اندر
تڑپتی ہے
بھٹکتی پھرتی ہے
درد سے پھٹتے سر کی
درز سے
نکلنے کو بے تاب ہوتی ہے
میں وہ مہمل صحیفہ ہوں
تہہ در تہہ لپٹا ہوا
جس کے معنی کی سلطنت
آشکار نہیں ہوتی
مگر کتاب پو کی مانند
روز پھٹتی ہے