خزاں نے ستایا نہ خاروں نے لوٹا
خزاں نے ستایا نہ خاروں نے لوٹا گلوں نے دئے دکھ بہاروں نے لوٹا فلاحی ریاست کا نقشہ دکھا کر غریبوں کو سرمایہ کاروں نے لوٹا جو اسلام کے نام پر چل رہے تھے مزا ان سیاسی اداروں نے لوٹا کڑے وقت پر کام آنا تھا جن کو وطن کو انہیں جاں نثاروں نے لوٹا تجھے قاضئ شہر کیسے بتاؤں مرا گھر مرے ...