جستجو تیری درد سر ٹھہری
جستجو تیری درد سر ٹھہری
لے کے مجھ کو یہ در بدر ٹھہری
تجھ سے منسوب جب تلک میں رہی
میری ہستی بھی معتبر ٹھہری
یہ مری زندگی تمہارے بغیر
کتنی بے رنگ و مختصر ٹھہری
مشکلیں مجھ کو ڈھونڈنے نکلیں
دم جو لینے کو لمحہ بھر ٹھہری
یہ سلیقہ تجھی سے آیا ہے
بات کرنے میں با ہنر ٹھہری
اف تری بانہوں کا حصار لطیف
یوں لگا شام میں سحر ٹھہری
جس پہ محو سفر رہا تو مدام
بس وہی میری رہ گزر ٹھہری
ایک تم ہو کہ ہاتھ میں پتھر
اور میں ایک شیشہ گر ٹھہری
اپنے عرفان ذات سے رومیؔ
اپنے اندر میں معتبر ٹھہری