کنارہ در کنارہ مستقل منجدھار ہے یوں بھی
کنارہ در کنارہ مستقل منجدھار ہے یوں بھی
مرے پانی میں جو کچھ ہے وہ یوں پر اسرار ہے یوں بھی
بہا جاتا ہوں اکثر دور لمحوں کے حصاروں سے
مرے ٹھہراؤ کے آغوش میں رفتار ہے یوں بھی
کہاں خلیوں کے ویرانوں میں اس کو ڈھونڈنے جائیں
زمانوں کا سرا میرے سرے سے پار ہے یوں بھی
یہاں سے یوں بھی اک تجرید کی سرحد ابھرتی ہے
اور اپنے درمیاں انفاس کی دیوار ہے یوں بھی
ہمارے گنبدوں کی گونج کا چہرہ نہیں تو کیا
جو تجھ سے کہہ نہیں سکتے پس اظہار ہے یوں بھی
رہا کیا فرق اندر اور باہر میں ریاضؔ آخر
جو مجھ میں کھو چکا ہے مجھ سے وہ سب پار ہے یوں بھی