Riyaz Khairabadi

ریاضؔ خیرآبادی

خمریات کے لئے مشہور جب کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا

Well-known poet known for his poetry on wine, though he is said to have never touched wine.

ریاضؔ خیرآبادی کی غزل

    کیا ہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی

    کیا ہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی ہائے وہ نازک گلابی میری چھلکائی ہوئی جلوہ گہ میں آج یہ کس کی تماشائی ہوئی طور سے ہم لے کے آئے آنکھ پتھرائی ہوئی حشر میں فتنوں سے اچھی بزم آرائی ہوئی آ کے دنیا خود تماشا خود تماشائی ہوئی یہ بھی شامت تھی مرے اعمال کی لائی ہوئی سب سے پہلے حشر کے ...

    مزید پڑھیے

    دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا

    دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا میخانے کا در دیکھا اللہ کا گھر دیکھا گوشے سے نشیمن کے آہوں کا اثر دیکھا صیاد کا گھر جلتے بے برق و شرر دیکھا دونوں کے مزے لوٹے دونوں کا اثر دیکھا اللہ کا گھر دیکھا میخانے کا در دیکھا یوں حشر میں سیریں کیں فردوس و جہنم کی کچھ دیر ادھر دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل

    کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل ہوا کیا لٹ گیا دل مٹ گیا دل یہ کہہ کر دے دیا مجھ کو مرا دل ہمیں کوسے گا دے گا بد دعا دل مزا دے جائے گی مجھ کو تری آنکھ مزا دے جائے گا تجھ کو مرا دل چمن میں جو کھلا گل میں یہ سمجھا کہ ہے میرا یہ مرجھایا ہوا دل اٹھے گا لطف صحبت کا ابھی تو نئے تم ہو نئے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں

    یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں ہمارے ہی سب بل نکالے ہوئے ہیں تبسم فزا میرے نالے ہوئے ہیں ذرا شوخ اب شرم والے ہوئے ہیں مرے ہاتھ پر کھیلے ہیں افعی زلف یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں نہیں ہم کو لغزش کا ڈر میکدے میں کہ دو دو فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں الجھتے ہیں سوتے میں زلفوں ...

    مزید پڑھیے

    بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے

    بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے نگاہیں کہتی ہیں ہم ان سے گفتگو کرتے شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے حرم کے لوگ طواف خم و سبو کرتے وہ مل کے دست حنائی سے دل لہو کرتے ہم آرزو تو حسیں خون آرزو کرتے دروغ بافی دشمن کا حال کیا کھلتا جو پردہ چاک بھی ہوتا تو وہ رفو کرتے اتار لاتے انہیں ...

    مزید پڑھیے

    اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا

    اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا کل بام پر تھے آج ہے قصد آسمان کا رونا لکھا نصیب میں ہے اپنی جان کا شکوا نہ آپ کا نہ گلا آسمان کا بازار میں بھی چلتے ہیں کوٹھوں کو دیکھتے سودا خریدتے ہیں تو اونچی دکان کا یہ بھی خدا کی شان ہم اب ایسے ہو گئے سایا بھی بھاگتا ہے تمہارے مکان کا کیوں ...

    مزید پڑھیے

    جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل

    جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل ہوئے آج خنجر اٹھانے کے قابل عنادل بھی کلیاں بھی گل بھی صبا بھی یہ صحبت ہے ہنسنے ہنسانے کے قابل حنا بن کے میں چوم لوں دست نازک ترے ہاتھ ہیں رنگ لانے کے قابل جوانی کا اب رنگ کچھ آ چلا ہے وہ اب ہو چلے ہیں ستانے کے قابل مجھے دیکھ کر دخت رز تن رہی ...

    مزید پڑھیے

    کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں

    کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں جو ہیں دو چار تنکے آشیاں میں ہر اک سختی میں عالم نزع کا تھا ہماری عمر گزری امتحاں میں چھڑا لے سجدہ کرنے میں نہ کوئی لگے ہیں لال سنگ آستاں میں شرارے ہیں مرے نالوں کے قائم کہ تارے جڑ دیے ہیں آسماں میں قریب اب فصل گل شاید ہے صیاد مزا آنے لگا میری فغاں ...

    مزید پڑھیے

    منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں

    منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں کچھ نہیں یہ منہ دکھانا کچھ نہیں تھا جو کیا کچھ بات کہتے کچھ نہ تھا آدمی کا بھی ٹھکانا کچھ نہیں گل ہیں معشوقوں کے دامن کے لئے قبر عاشق پر چڑھانا کچھ نہیں ہے ستانے کا بھی لطف اک وقت پر ہر گھڑی ان کو ستانا کچھ نہیں بے منائے من گئے ہم آپ سے ایسے ...

    مزید پڑھیے

    در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا

    در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا عکس سورج ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا حسن موجوں کا چھلکنا بھرے پیمانے کا رقص پریوں کا ہے عالم ہے پری خانے کا ہائے زنجیر شکن وہ کشش فصل بہار اور زنداں سے نکلنا ترے دیوانے کا صدقے اس سوز کے جو سوز ہو اس حسن کے ساتھ شعلہ گویا پر پرواز ہے پروانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5