Riyaz Khairabadi

ریاضؔ خیرآبادی

خمریات کے لئے مشہور جب کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا

Well-known poet known for his poetry on wine, though he is said to have never touched wine.

ریاضؔ خیرآبادی کے تمام مواد

46 غزل (Ghazal)

    کیا ہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی

    کیا ہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی ہائے وہ نازک گلابی میری چھلکائی ہوئی جلوہ گہ میں آج یہ کس کی تماشائی ہوئی طور سے ہم لے کے آئے آنکھ پتھرائی ہوئی حشر میں فتنوں سے اچھی بزم آرائی ہوئی آ کے دنیا خود تماشا خود تماشائی ہوئی یہ بھی شامت تھی مرے اعمال کی لائی ہوئی سب سے پہلے حشر کے ...

    مزید پڑھیے

    دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا

    دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا میخانے کا در دیکھا اللہ کا گھر دیکھا گوشے سے نشیمن کے آہوں کا اثر دیکھا صیاد کا گھر جلتے بے برق و شرر دیکھا دونوں کے مزے لوٹے دونوں کا اثر دیکھا اللہ کا گھر دیکھا میخانے کا در دیکھا یوں حشر میں سیریں کیں فردوس و جہنم کی کچھ دیر ادھر دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل

    کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل ہوا کیا لٹ گیا دل مٹ گیا دل یہ کہہ کر دے دیا مجھ کو مرا دل ہمیں کوسے گا دے گا بد دعا دل مزا دے جائے گی مجھ کو تری آنکھ مزا دے جائے گا تجھ کو مرا دل چمن میں جو کھلا گل میں یہ سمجھا کہ ہے میرا یہ مرجھایا ہوا دل اٹھے گا لطف صحبت کا ابھی تو نئے تم ہو نئے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں

    یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں ہمارے ہی سب بل نکالے ہوئے ہیں تبسم فزا میرے نالے ہوئے ہیں ذرا شوخ اب شرم والے ہوئے ہیں مرے ہاتھ پر کھیلے ہیں افعی زلف یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں نہیں ہم کو لغزش کا ڈر میکدے میں کہ دو دو فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں الجھتے ہیں سوتے میں زلفوں ...

    مزید پڑھیے

    بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے

    بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے نگاہیں کہتی ہیں ہم ان سے گفتگو کرتے شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے حرم کے لوگ طواف خم و سبو کرتے وہ مل کے دست حنائی سے دل لہو کرتے ہم آرزو تو حسیں خون آرزو کرتے دروغ بافی دشمن کا حال کیا کھلتا جو پردہ چاک بھی ہوتا تو وہ رفو کرتے اتار لاتے انہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام