Rind Lakhnavi

رند لکھنوی

رند لکھنوی کی غزل

    سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا

    سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا ہنس کے بولے شاہ صاحب کس طرف آنا ہوا ٹوٹے بت مسجد بنی مسمار بت خانہ ہوا جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا ہر جگہ موجود سمجھا اس کو سجدہ کر لیا خواہ مسجد خواہ گرجا خواہ بت خانہ ہوا باز رکھتی ہے ہمیں خدمت سے ازخود رفتگی آن نکلیں گے کبھی گر ...

    مزید پڑھیے

    خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے

    خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے گل مست ہے چمن میں پیالہ پیے ہوئے امسال فصل گل میں وہ پھر چاک ہو گئے اگلے برس کے تھے جو گریباں سیے ہوئے ہم بھی ہوا میں اک گل نوخیز حسن کے برسوں پھرے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے دوکانیں مے فروشوں کی کب سے پڑی ہیں بند رہ رہ گئے ہیں قفل دیے کے دیے ہوئے عشق ...

    مزید پڑھیے

    حیران سی ہے بھچک رہی ہے

    حیران سی ہے بھچک رہی ہے نرگس کس گل کو تک رہی ہے آئی ہے بہار غنچے چٹکے کیا پھولوں کی بو مہک رہی ہے مے خانے پہ مینہ برس رہا ہے بجلی کیسی چمک رہی ہے باقی ہے اثر ابھی جنوں کا سودا تو گیا ہے جھک رہی ہے پوچھو نہ جلن کا دل کے احوال اک آگ پڑی دہک رہی ہے نرگس کو تو آنکھ اٹھا کے دیکھو کس ...

    مزید پڑھیے

    اک پری کا پھر مجھے شیدا کیا

    اک پری کا پھر مجھے شیدا کیا عشق نے پھر مفسدہ برپا کیا آج پھر اس شوخ نے فقرا کیا وعدۂ امروز بھی فردا کیا خون ناحق اک مسلماں کا کیا کیا غضب او شوخ بے پروا کیا دل کو مائل شعلہ رویوں کا کیا دین زردشتی کو پھر احیا کیا ابر اکثر اس برس برسا کیا کیا تتبع دیدۂ تر کا کیا کیوں اجل کیا ...

    مزید پڑھیے

    رکھو خدمت میں مجھ سے کام تو لو

    رکھو خدمت میں مجھ سے کام تو لو بات کرتے نہیں سلام تو لو مے پیو تم سرور ہو مجھ کو ہاتھ سے میرے ایک جام تو لو بات تم نے نہیں کی غیر سے کل سر پہ اللہ کا کلام تو لو بندہ ہوتا ہوں آپ کا بے دام ہووے درکار اگر غلام تو لو ناز و انداز حسن و خوبی میں کون ہے تم سا اس کا نام تو لو آپ فرمائیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4