رضا اشک کی نظم

    دیوداس کی واپسی

    سنا ہے میں نے کہ شہر کا اک رئیس زادہ شرت کے ناول کا ایک کردار بن گیا ہے شراب پی کر وہ خاک چکلوں کی چھانتا ہے وہ ویشیاؤں میں اپنی پارو کو ڈھونڈھتا ہے مگر نہ پارو ملی اسے تو وہ بھی کیا خودکشی کرے گا نہیں جئے گا

    مزید پڑھیے

    گریز

    میں نے جس راہ کو مدت سے بدل ڈالا ہے پھر سے وہ راہ دکھانے کو چلی آئی ہو اپنے نینوں سے سلگتے ہوئے دیپک لے کر پیار کی جوت جگانے کو چلی آئی ہو میری امید کے ٹوٹے ہوئے پتواروں کو تند حالات کے طوفان سے ٹکرانے دو اک تہی دست کی مظلوم تمناؤں کو بربریت کے ہر ایوان سے ٹکرانے دو ایک محور ہی پہ ...

    مزید پڑھیے