گریز

میں نے جس راہ کو مدت سے بدل ڈالا ہے
پھر سے وہ راہ دکھانے کو چلی آئی ہو
اپنے نینوں سے سلگتے ہوئے دیپک لے کر
پیار کی جوت جگانے کو چلی آئی ہو
میری امید کے ٹوٹے ہوئے پتواروں کو
تند حالات کے طوفان سے ٹکرانے دو
اک تہی دست کی مظلوم تمناؤں کو
بربریت کے ہر ایوان سے ٹکرانے دو
ایک محور ہی پہ چلتی رہے تا عمر مدام
زندگی اتنی مری جان سبک گام نہیں
اپنی مجبور محبت کی شکستوں کی قسم
عرصۂ جہد میں ہستی مری ناکام نہیں
اپنی حساس طبیعت کی قسم ہے مجھ کو
دل میں اب پیار کا پہلا سا وہ احساس نہیں
ان میں اب ایک نئی آگ کی حدت ہے مگر
میرے انفاس میں اب پہلی سی بو باس نہیں
جس کی تنویر نکھارے گی محبت کا جمال
اب مرے ذہن میں وہ صبح سی لہراتی ہے
راہ کی ظلمت بے رنگ کے با وصف مجھے
جگمگاتی ہوئی قندیل نظر آتی ہے