منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے
منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے آغاز ہی آغاز ہے انجام نہیں ہے صیاد یہ کیوں کر کہوں آرام نہیں ہے جو کل تھی تڑپ آج تہ دام نہیں ہے نظارے سے ہاں اور بھی دل ہوتا ہے بے چین بے آپ کے دیکھے بھی تو آرام نہیں ہے آرام سکوں میں ہے سکوں موت میں یعنی جینے میں تو ظاہر ہے کہ آرام نہیں ہے ہے ...