منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے
منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے
آغاز ہی آغاز ہے انجام نہیں ہے
صیاد یہ کیوں کر کہوں آرام نہیں ہے
جو کل تھی تڑپ آج تہ دام نہیں ہے
نظارے سے ہاں اور بھی دل ہوتا ہے بے چین
بے آپ کے دیکھے بھی تو آرام نہیں ہے
آرام سکوں میں ہے سکوں موت میں یعنی
جینے میں تو ظاہر ہے کہ آرام نہیں ہے
ہے شام تو اب صبح کا ہونا ہے قیامت
جب صبح ہوئی تو خبر شام نہیں ہے
یہ درد یہ سوزش یہ تڑپ اور یہ آہیں
کس منہ سے کہوں عشق میں آرام نہیں ہے
ہو دل میں محبت تو ہو احساس محبت
فطرت کا یہ انعام مگر عام نہیں ہے
زلفیں رخ پر نور پہ کہتی ہیں بکھر کے
اس شام کے بعد اور کوئی شام نہیں ہے
روشنؔ یہ محبت کی ہے دنیا ہی نرالی
مٹ جانا یہاں کوئی بڑا کام نہیں ہے