Raushan Banarasi

روشن بنارسی

روشن بنارسی کی غزل

    منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے

    منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے آغاز ہی آغاز ہے انجام نہیں ہے صیاد یہ کیوں کر کہوں آرام نہیں ہے جو کل تھی تڑپ آج تہ دام نہیں ہے نظارے سے ہاں اور بھی دل ہوتا ہے بے چین بے آپ کے دیکھے بھی تو آرام نہیں ہے آرام سکوں میں ہے سکوں موت میں یعنی جینے میں تو ظاہر ہے کہ آرام نہیں ہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    بجھا بجھا سا چراغ سر مزار ہوں میں

    بجھا بجھا سا چراغ سر مزار ہوں میں خزاں نے جس کو سنوارا ہے وہ بہار ہوں میں وہ جس پہ غیر بھی روتے ہیں آٹھ آٹھ آنسو وہ ایک محفل ماضی کی یادگار ہوں میں جو تیرے دامن رحمت کی آبرو رکھ لے مرے کریم وہی اک گناہ گار ہوں میں نگاہ ہو تو ذرا دیکھ عالم تخریب اجل کی گود میں قدرت کا شاہکار ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری یاد میں یہ بے خودی کا عالم ہے

    تمہاری یاد میں یہ بے خودی کا عالم ہے نہ زندگی کی خوشی ہے نہ موت کا غم ہے وہ ایک اشک کا قطرہ جو حاصل غم ہے وہی تو زخم جگر کا ہمارے مرہم ہے مقام اپنا ہے اس طرح دار فانی میں کہ جیسے دامن گل پر ثبات شبنم ہے بدل سکے نہ قفس کے مصائب و آلام ہماری فطرت آزاد کتنی محکم ہے مٹا چکے تھے جو مجھ ...

    مزید پڑھیے

    مری کشتیٔ محبت یوں ہی پا گئی کنارا (ردیف .. ہ)

    مری کشتیٔ محبت یوں ہی پا گئی کنارا کسی موج نے ڈبویا کسی موج نے ابھارا بہت آسرا لگا کر بڑے پیار سے پکارا تمہیں سامنے نہ آئے تمہیں کر گئے کنارا کوئی تلخئ محبت کو نہ کر سکا گوارا یہ تو صرف میرا دل تھا کہ یہ بن گیا تمہارا مرے پیار سے نہ کھیلو مرا زخم دل نہ چھیڑو کہیں جل نہ جائے دامن ...

    مزید پڑھیے

    وقت آخر کام جذب ناتمام آیا تو کیا

    وقت آخر کام جذب ناتمام آیا تو کیا ہچکیوں کی شکل میں ان کا پیام آیا تو کیا رہ گئی رندوں میں جب ساغر اٹھانے کی نہ تاب اب تغافل آشنا ساقی بہ جام آیا تو کیا وقت ہی پر لے کے ابھرے گا پیام صبح نو ڈوبتے سورج کو تاروں کا سلام آیا تو کیا لطف تو جب ہے کہ جلوہ ہو بقدر ظرف دید بن کے برق طور وہ ...

    مزید پڑھیے