مری کشتیٔ محبت یوں ہی پا گئی کنارا (ردیف .. ہ)

مری کشتیٔ محبت یوں ہی پا گئی کنارا
کسی موج نے ڈبویا کسی موج نے ابھارا


بہت آسرا لگا کر بڑے پیار سے پکارا
تمہیں سامنے نہ آئے تمہیں کر گئے کنارا


کوئی تلخئ محبت کو نہ کر سکا گوارا
یہ تو صرف میرا دل تھا کہ یہ بن گیا تمہارا


مرے پیار سے نہ کھیلو مرا زخم دل نہ چھیڑو
کہیں جل نہ جائے دامن مری آہ سے تمہارا


نہ ملال ہو کسی کو مری فتح مندیوں سے
مری چال ہی نئی تھی میں یہی سمجھ کے ہارا


نہ حرم سے کوئی رغبت نہ صنم کدے سے نسبت
یہ ہے آدمی کی دنیا مجھے آدمی ہے پیارا


مرے کام آئی آخر مری ہمت آزمائی
جسے کہہ رہے تھے طوفاں وہی بن گیا کنارا


یہ ہے نیکیوں کا بدلہ کہ ہے اپنی کم نصیبی
وہی دشمن سکوں ہے جسے دے دیا سہارا


نئے نقش زندگی کے ابھر آئے پتھروں سے
تری چشم فتنہ گر نے کیا جب کبھی اشارہ