Rauf Khair

رؤف خیر

جنوبی ہند کے ممتاز شاعر اور فکشن نویس۔

Noted poet and fiction writer from south India.

رؤف خیر کی غزل

    رستے میں تو خطرات کی سن گن بھی بہت ہے

    رستے میں تو خطرات کی سن گن بھی بہت ہے منزل پہ پہنچنے کی ہمیں دھن بھی بہت ہے ہر شہر میں تازہ ہے تو بس زخم تعصب کچھ لذت ناحق کا تعاون بھی بہت ہے کچھ ہاتھوں سے کچھ ماتوں سے کالک نہیں جاتی ہر چند کہ بازار میں صابن بھی بہت ہے وہ ہاتھ تحفظ کی علامت جسے کہیے محسوس یہ ہوتا ہے وہی سن بھی ...

    مزید پڑھیے

    دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم

    دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم کوفے کا حال دیکھ رہے ہیں جہاں سے ہم ہندوستان ہم سے ہے یہ بھی درست ہے یہ بھی غلط نہیں کہ ہیں ہندوستاں سے ہم رکھا ہے بے نیاز اسی بے نیاز نے وابستہ ہی نہیں ہیں کسی آستاں سے ہم رکھتا نہیں ہے کوئی شہادت کا حوصلہ اس کے خلاف لائیں گواہی کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو

    بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو چاہے رئیس شہر کی بولی ہی کیوں نہ ہو احسان رنگ غیر اٹھاتے نہیں کبھی اپنے لہو سے کھیل وہ ہولی ہی کیوں نہ ہو سچ تو یہ ہے کہ ہاتھ نہ آنا کمال ہے دنیا سے کھیل آنکھ مچولی ہی کیوں نہ ہو ہے آسماں وسیع زمیں تنگ ہی سہی تعمیر کر کہیں کوئی کھولی ہی کیوں ...

    مزید پڑھیے

    لبھا رہی تو ہے دنیا چمک دمک کی مجھے

    لبھا رہی تو ہے دنیا چمک دمک کی مجھے مگر حیات گوارا نہیں دھنک کی مجھے ہمیشہ اپنی لڑائی میں آپ لڑتا ہوں نہیں رہی کبھی حاجت کسی کمک کی مجھے بہت دنوں سے زمان و مکان حائل ہیں کہ آس بھی نہ رہی اب تری جھلک کی مجھے مرے قلم کی جو زد میں یہ بحر و بر آتے دہائی دینے لگے نان اور نمک کی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں پہ ابھی تہمت بینائی کہاں ہے

    آنکھوں پہ ابھی تہمت بینائی کہاں ہے تو خود ہی تماشہ ہے تماشائی کہاں ہے آئینہ ہوئی تشنگی پایابیٔ جاں سے چہرے پہ تو لکھی ہوئی رسوائی کہاں ہے ان جاگتی آنکھوں کو ملے دھوپ کے بازار اے دل وہ پگھلتی ہوئی تنہائی کہاں ہے سورج ہے کہ بس نوک پہ سوئی کی کھڑا ہے اب فرصت کم کم بھی مرے بھائی ...

    مزید پڑھیے

    شرطوں پہ اپنی کھیلنے والے تو ہیں وہی

    شرطوں پہ اپنی کھیلنے والے تو ہیں وہی مہرے سفید گھر میں بھی کالے تو ہیں وہی شاخوں پہ سانپ ہیں تو شکاری ہیں تاک میں سہمے پرندے ان کے نوالے تو ہیں وہی پہچاننے میں ہم کو تکلف ہوا انہیں حالانکہ اپنے جاننے والے تو ہیں وہی وارث بدل گئے کہ وصیت بدل گئی لیکن گواہ اور قبالے تو ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی زور خریدار پر نہیں چلتا

    کوئی بھی زور خریدار پر نہیں چلتا کہ کاروبار تو اخبار پر نہیں چلتا ہم آپ اپنا گریبان چاک کرتے ہیں ہمارا بس ہی تو سرکار پر نہیں چلتا کچھ اور چاہیئے تسکین جسم و جاں کے لیے ہمارا کام تو دیدار پر نہیں چلتا میں جانتا ہوں مجھے کس کا ساتھ دینا ہے میں بلی بن کے تو دیوار پر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی احسان ہی سے ماورا تھی میں نہ تھا

    زندگی احسان ہی سے ماورا تھی میں نہ تھا طاق پر رکھی ہوئی میری دوا تھی میں نہ تھا میری ہستی آئینہ تھی یا شکست آئینہ بات اتنی سی نہ سمجھے میرے ساتھی میں نہ تھا تو ہی تو سب کچھ سہی نا چیز یہ اب کچھ سہی وہ تو میری ابتدا بے انتہا تھی میں نہ تھا دیکھتا رہتا ہوں منظر دیدنی نا دیدنی ہاں ...

    مزید پڑھیے

    اگر انار میں وہ روشنی نہیں بھرتا

    اگر انار میں وہ روشنی نہیں بھرتا تو خاکسار دم آگہی نہیں بھرتا یہ بھوک پیاس بہرحال مٹ ہی جاتی ہے مگر ہے چیز تو ایسی کہ جی نہیں بھرتا تو اپنے آپ میں مانا کہ ایک دریا ہے مرا وجود بھی کوزہ سہی نہیں بھرتا یہ لین دین کی اپنی حدیں بھی ہوتی ہیں کہ پیٹ بھرتا ہے جھولی کوئی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ناخوش گدائی سے نہ وہ شاہی سے خوش ہوئے

    ناخوش گدائی سے نہ وہ شاہی سے خوش ہوئے مظلوم ظالموں کی تباہی سے خوش ہوئے صد منزلہ وہ قصر انا ڈھیر ہو گیا احباب پل صراط کے راہی سے خوش ہوئے زندہ دلوں پہ رشک تو کرتی ہے موت بھی ہم سرفروش عہد الٰہی سے خوش ہوئے فرزیں کے سامنے ہے پیادہ ڈٹا ہوا اہل بساط ایسے سپاہی سے خوش ہوئے وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2