شرطوں پہ اپنی کھیلنے والے تو ہیں وہی

شرطوں پہ اپنی کھیلنے والے تو ہیں وہی
مہرے سفید گھر میں بھی کالے تو ہیں وہی


شاخوں پہ سانپ ہیں تو شکاری ہیں تاک میں
سہمے پرندے ان کے نوالے تو ہیں وہی


پہچاننے میں ہم کو تکلف ہوا انہیں
حالانکہ اپنے جاننے والے تو ہیں وہی


وارث بدل گئے کہ وصیت بدل گئی
لیکن گواہ اور قبالے تو ہیں وہی


اب ان پہ انگلیوں کے نشانات اور ہیں
ہرچند اپنے قتل کے آلے تو ہیں وہی


کھلواڑ کر رہے تھے جو ہم سے وہ کھل گئے
یہ اور بات حیلے حوالے تو ہیں وہی


ساری حیات جن کی اندھیرے میں کٹ گئی
اندھیر ہے کہ خیرؔ جیالے تو ہیں وہی