Rauf Khair

رؤف خیر

جنوبی ہند کے ممتاز شاعر اور فکشن نویس۔

Noted poet and fiction writer from south India.

رؤف خیر کی غزل

    اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے

    اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے لہو سے قبل شہادت چلو وضو ہو جائے قریب دیدہ و دل اس قدر جو تو ہو جائے تو کیا عجب تری تعریف میں غلو ہو جائے بھلے ہی ہوتی ہے دنیا تمام ہو ہو جائے خدا نخواستہ میرے خلاف تو ہو جائے میں اپنا فون کبھی بند ہی نہیں رکھتا نہ جانے کب اسے توفیق گفتگو ہو ...

    مزید پڑھیے

    وہ خوش سخن تو کسی پیروی سے خوش نہ ہوا

    وہ خوش سخن تو کسی پیروی سے خوش نہ ہوا مزاج لکھنوی و دہلوی سے خوش نہ ہوا ملال یہ ہے کہ آخر بچھڑ گیا مجھ سے وہ ہم سفر جو مری خوش روی سے خوش نہ ہوا تجھے خبر بھی ہے کیا کیا خیال آتا ہے کہ جی ترے سخن ملتوی سے خوش نہ ہوا فقیر شاہ نہیں شاہ ساز ہوتا ہے یہ خوش نظر نگہ خسروی سے خوش نہ ...

    مزید پڑھیے

    پتے تمام حلقۂ صرصر میں رہ گئے

    پتے تمام حلقۂ صرصر میں رہ گئے ہم شاخ سبز میں شجر تر میں رہ گئے لکھ لینا اس قدر وہ سفینے نہیں مرے ساحل پہ رہ گئے جو سمندر میں رہ گئے اس لذت سفر کو میں اب ان سے کیا کہوں جو سایہ ہائے سرو و صنوبر میں رہ گئے آثار یک خرابۂ آباد ہو کے ہم سینوں میں رہ نہ پائے تو پتھر میں رہ گئے باہر ہی ...

    مزید پڑھیے

    گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے

    گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے بہر قیمت وفاداری ہی ساری لے کے نکلا ہے ہتھیلی پر اگر وہ جان پیاری لے کے نکلا ہے سفاری سوٹ میں ٹاٹا سفاری لے کے نکلا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    دل دکھ نہ جائے بات کوئی بے سبب نہ پوچھ

    دل دکھ نہ جائے بات کوئی بے سبب نہ پوچھ خانہ بدوش لوگوں سے نام و نسب نہ پوچھ حد آسماں کی پوچھ زمیں کا ادب نہ پوچھ کن منزلوں میں ہے مری پرواز اب نہ پوچھ نان جویں کی آس بھی کیا شے ہے اب نہ پوچھ پردیسیوں سے مشغلۂ روز‌ و شب نہ پوچھ بے گھر ہوئے ہیں دیدۂ بے خواب کے قتیل اب جگنوؤں سے ...

    مزید پڑھیے

    زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا

    زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا یہ مرحلہ ہی کبھی پیار میں نہیں آتا کھلے گا ان پہ جو بین السطور پڑھتے ہیں وہ حرف حرف جو اخبار میں نہیں آتا سمجھنے والے یقیناً سمجھ ہی لیتے ہیں ہمارا درد جو اظہار میں نہیں آتا یہ خاندان ہمارا بکھر گیا جب سے مزہ ہمیں کسی تہوار میں نہیں آتا ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں

    ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں شام ہوتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    جنوں پسند حریف خرد تو ہم بھی ہیں

    جنوں پسند حریف خرد تو ہم بھی ہیں عدو جو نیک نہیں ہے تو بد تو ہم بھی ہیں ہزار صفر سہی اک عدد تو ہم بھی ہیں تمہارے ساتھ ازل تا ابد تو ہم بھی ہیں اب اتنا ناز سمندر مزاجیوں پہ نہ کر کہ اپنے آپ میں اک جزر و مد تو ہم بھی ہیں ہمیں قبول کہاں کم سواد کرتے ہیں خراب مشغلۂ رد و کد تو ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    تا بہ کے منزل بہ منزل ہم مسافر بھاگتے

    تا بہ کے منزل بہ منزل ہم مسافر بھاگتے آنکھ اب ٹھہری ہوئی ہے اور مناظر بھاگتے اے حریف ہر قدم شہ مات سے بچنے کی سوچ اس بساط خاک سے کیا ہم سے شاطر بھاگتے ہم تو آئے ہیں یہاں مٹنے مٹانے کے لئے اس زمین کربلا سے کس کی خاطر بھاگتے بس میں آ جانے کا جذبہ بس میں کرنے کی ہوس خاک‌ و باد و آب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2