رستے میں تو خطرات کی سن گن بھی بہت ہے
رستے میں تو خطرات کی سن گن بھی بہت ہے
منزل پہ پہنچنے کی ہمیں دھن بھی بہت ہے
ہر شہر میں تازہ ہے تو بس زخم تعصب
کچھ لذت ناحق کا تعاون بھی بہت ہے
کچھ ہاتھوں سے کچھ ماتوں سے کالک نہیں جاتی
ہر چند کہ بازار میں صابن بھی بہت ہے
وہ ہاتھ تحفظ کی علامت جسے کہیے
محسوس یہ ہوتا ہے وہی سن بھی بہت ہے
اک جسم کے مانند ہیں ہم لوگ کہیں ہوں
ٹھوکر سے اکھڑتا ہے تو ناخن بھی بہت ہے
ہم شعر کہا کرتے ہیں وجدان کے بل پر
کچھ لوگوں کو زعم فعلاتن بھی بہت ہے