Rashid Jamaal Farooqi

راشد جمال فاروقی

راشد جمال فاروقی کی نظم

    عجب معرکہ

    یہ معرکہ بھی عجب ہے کہ جس سے لڑتا ہوں وہ میں ہی خود ہوں رجز مرا مرے دشمن کے حق میں جاتا ہے جو چل رہے ہیں وہ تیر و تفنگ اپنے ہیں جو کاٹتے ہیں وہ سامان جنگ اپنے ہیں میں سرخ رو ہوں تو خود اپنے خوں کی رنگ سے میں آشنا ہوں خود ایذا دہی کی لذت سے عجیب جنگ مرے اندروں میں چھڑتی ہے مری انا مری ...

    مزید پڑھیے

    آخری نظم

    زمیں جس سے مجھ کو شکایت رہی ہے کہ وہ سب کے حصے میں ہے کچھ نہ کچھ ایک میرے سوا زمیں جس پہ رہنا ہی کار عبث تھا وہی چھوڑنی پڑ رہی ہے تو میں اتنا گھبرا رہا ہوں کہ اب میری یک رنگ روز اور شب ماہ اور سال کی ساری اکتاہٹیں کیا ہوئیں

    مزید پڑھیے

    تبدیلی

    مرا بیٹا بلوغت کی حدیں چھونے لگا ہے اسے نازک رنگا رنگ تتلیاں خوش آ رہی ہیں وہ اکثر گنگناتا ہے دھنک نغمے اب اس کی پتلیوں میں سبز فصلیں لہلہاتی ہیں وہ سوتا ہے تو خوابوں میں کہیں گل گشت کرتا ہے اب اس کی مسکراہٹ میں چبھن ہے اور اس کے ہاتھ گستاخی کے جویا ہو چلے ہیں وہ کانوں پر یقیں کرنے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب خواہش

    میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا جوان ہو کر کسی حسینہ کی کاکلوں کا اسیر ٹھہرے مری دعا ہے کہ یہ روایت نہ ٹوٹ جائے اسے بھی کچھ دل کی رہنمائی میں زندگی کو گزارنے کا شرف عطا ہو مشین اس کو بھی بن ہی جانا ہے آخرش بس دعا یہی ہے کہ منطقوں اور مصلحت کی نپی تلی زندگی سے پہلے وہ جی کے دیکھے خود اپنی ...

    مزید پڑھیے

    امی کی یاد میں

    امی کی یہ جائے نماز مجھے دے دو مجھے پتہ ہے اس میں کتنی روشن صبحیں جذب ہوئی ہیں کتنی سناٹی دوپہریں اس کی سیون میں زندہ ہیں مغرب کے جھٹ پٹ انوار کی شاہد ہے یہ آخر شب کا گریہ اس کے تانے بانے کا حصہ ہے مجھے پتہ ہے امی کے پاکیزہ سجدوں کی سرگوشی اس کے کانوں میں زندہ ہے اس کے سچے سچے ...

    مزید پڑھیے

    ایک بیمار صبح

    اگر معذور ہو چستی سے پر لوگوں کو دیکھو اندھیرے منہ ،وہ اک اخبار والا گزشتہ روز کی سب لعنتوں کو رول کر کے تمہارے بند دروازے پہ کب کا پھینک کر جا بھی چکا ہے تمہارا دودھ والا شیر خواروں کی صبح ہونے سے پہلے دودھ دے کر جا چکا ہے اگر معذور ہو کھڑکی کے شیشوں سے چپک کر بیٹھ جاؤ اور ...

    مزید پڑھیے

    ایک منجمد لمحہ

    مرے باطن میں صد ہا رنگ کے موسم کئی منظر، رتیں، طوفان، پل پل پل رہے ہیں اور اپنی موت مرتے جا رہے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اک موسم، کوئی منظر، کوئی رت یا کوئی طوفاں تسلسل کی کڑی سے ٹوٹ کر اک لمحہ رکتا ہے ذرا سا منجمد ہوتا ہے اور اک نظم ہوتی ہے

    مزید پڑھیے

    والد صاحب کی یاد میں

    یہ تو صدیوں کا قصہ تھا یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا جلتی، تپتی، بھنتی اور سلگتی رت میں اس کے نیچے یہیں کہیں پر ایک جزیرہ سا آباد رہا کرتا تھا خنک خنک سائے میں ہنستے ،گاتے مسکاتے لوگوں کی اک بستی تھی یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا یہی دھوپ جو آج یہاں پر چیخ رہی ہے پل بھر ...

    مزید پڑھیے