Rashid Jamaal Farooqi

راشد جمال فاروقی

راشد جمال فاروقی کی غزل

    سوال گونج کے چپ ہیں جواب آئے نہیں

    سوال گونج کے چپ ہیں جواب آئے نہیں جو آنے والے تھے وہ انقلاب آئے نہیں یہ کیا حضر کہ سفر کی ضرورتیں ہی نہ ہوں یہ کیا سفر کہ کہیں پر سراب آئے نہیں وہ ایک نیند کی جو شرط تھی ادھوری رہی ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب آئے نہیں دعا کرو کہ خزاں میں ہی چند پھول کھلیں کہ اب کے موسم گل میں ...

    مزید پڑھیے

    سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں

    سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں کہیں کوئی سائبان بھی دے کہ گرد وحشت اتار آئیں یہ خشک سالی کہ مدتوں سے چمن میں آ کر پسر گئی ہے کبھی تو نخل مراد جھومے کہیں تو کچھ برگ و بار آئیں زمیں کہ گل پوش بھی رہی اور فلک پہ قوس قزح بھی جھومی مزے مزے کی وہ ساعتیں تھیں چلو یہ دن ...

    مزید پڑھیے

    پیارا سا خواب نیند کو چھو کر گزر گیا

    پیارا سا خواب نیند کو چھو کر گزر گیا مایوسیوں کا زہر گلے میں اتر گیا آنکھوں کو کیا چھلکنے سے روکا غضب ہوا لگتا ہے سارا جسم ہی اشکوں سے بھر گیا دیکھے تہہ چراغ گھنی ظلمتوں کے داغ اور میں فزون کیف و مسرت سے ڈر گیا تنہائیاں ہی شوق سے پھر ہم سفر ہوئیں جب نشۂ جنون رفاقت اتر گیا کوچے ...

    مزید پڑھیے

    موسم کے مطابق کوئی ساماں بھی نہیں ہے

    موسم کے مطابق کوئی ساماں بھی نہیں ہے اور رت کے بدل جانے کا امکاں بھی نہیں ہے ڈھونڈو تو خوشی کا کوئی پل ہاتھ نہ آئے دیکھو تو یہاں کوئی پریشاں بھی نہیں ہے رشتے میں وہ پہلی سی تڑپ اب نہیں ملتی ہاں یوں تو بظاہر وہ گریزاں بھی نہیں ہے بس چھت کے شگافوں کو پڑے گھورتے رہئے یارا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں دشت شعر میں یوں رائیگاں تو ہوتا رہا

    میں دشت شعر میں یوں رائیگاں تو ہوتا رہا اسی بہانے مگر کچھ بیاں تو ہوتا رہا کوئی تعلق خاطر تو تھا کہیں نہ کہیں وہ خوش گماں نہ سہی بد گماں تو ہوتا رہا اسے خبر ہی نہیں کتنے لوگ راکھ ہوئے وہ اپنے لہجے میں آتش فشاں تو ہوتا رہا نہ احتیاج کے نالے نہ احتجاج کی لے بس ایک ہمہمۂ رائیگاں تو ...

    مزید پڑھیے

    خموش جھیل میں گرداب دیکھ لیتے ہیں

    خموش جھیل میں گرداب دیکھ لیتے ہیں سمندروں کو بھی پایاب دیکھ لیتے ہیں ذرا جو عظمت رفتہ پہ حرف آنے لگے تو اک بچی ہوئی محراب دیکھ لیتے ہیں اچٹتی نیند سے حاصل بھی اور کیا ہوگا کٹے پھٹے ہوئے کچھ خواب دیکھ لیتے ہیں ہمیں بھی جرأت گفتار ہونے لگتی ہے جو ان کے لہجے کو شاداب دیکھ لیتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ

    یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ ہر ایک شخص کہے ہے کہا ہوا سا کچھ وہ گہرے گہرے سبھی زخم بھر گئے جب سے نیا سا درد لگے ہے سہا ہوا سا کچھ یہ تیز و تند ہوائیں اڑا ہی لے جائیں اگر بچا کے نہ رکھوں بچا ہوا سا کچھ کراہنے کی صدائیں بھی اب نہیں آتیں تمام شہر لگے ہے ڈرا ہوا سا کچھ ہر ایک ...

    مزید پڑھیے

    اس تگ و دو نے آخرش مجھ کو نڈھال کر دیا

    اس تگ و دو نے آخرش مجھ کو نڈھال کر دیا جینے کے اہتمام نے جینا محال کر دیا اب ہم اسیر زلف ہیں کس کے کسی کو کیا غرض اس نے تو اپنی قید سے ہم کو بحال کر دیا بزم طرب سجائیں کیا اب ہم ہنسیں ہنسائیں کیا تم نے تو ہم کو جان جاں وقف ملال کر دیا شعر و سخن کا اک ہنر رکھتے تھے ہم سو شکر ہے کچھ دل ...

    مزید پڑھیے

    بھلے دن آئیں تو آنے والے برے دنوں کا خیال رکھنا

    بھلے دن آئیں تو آنے والے برے دنوں کا خیال رکھنا تمام خوشیوں کے جمگھٹوں میں بھی تھوڑا تھوڑا ملال رکھنا وہ جا رہا ہو تو واپسی کے تمام امکان جان لینا جو لوٹ آئے تو کیسے گزری یہ اس سے پہلا سوال رکھنا اگر کبھی یوں لگے کہ سب کچھ اندھیری راتوں کے داؤ پر ہے تو ایسی راتوں میں ڈر نہ جانا ...

    مزید پڑھیے

    تمام قضیہ مکان بھر تھا

    تمام قضیہ مکان بھر تھا مکان کیا تھا مچان بھر تھا یہ شہر لا حد و سمت میرا گلوب میں اک نشان بھر تھا روایتوں سے کوئی تعلق جو بچ رہا پان دان بھر تھا گمان بھر تھے تمام دھڑکے تمام ڈر امتحان بھر تھا طمانیت بارشوں میں حل تھی جو خوف تھا سائبان بھر تھا جو جست تھی ایک مشت بھر تھی جو شور ...

    مزید پڑھیے