Rashid Anwar Rashid

راشد انور راشد

راشد انور راشد کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    منجمد آخر ہے کیوں تا حد منظر پھیل جا

    منجمد آخر ہے کیوں تا حد منظر پھیل جا چار جانب اے مرے خوں کے سمندر پھیل جا میری آوارہ مزاجی کا رکھا تو نے بھرم اے غبار دشت آ سینے کے اندر پھیل جا آ تجھے اپنی نظر سے بھی رکھوں محفوظ میں شوق سے مجھ میں سما اندر ہی اندر پھیل جا تذکروں کا اوڑھ جامہ اے مری زندہ دلی ہر نئے قصبے میں جا ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ گزرا ہے لہروں سے جنگ کرتے ہوئے

    زمانہ گزرا ہے لہروں سے جنگ کرتے ہوئے کبھی تو پار لگوں ڈوبتے ابھرتے ہوئے بڑے ہی شوق سے اک آشیاں بنایا تھا میں کیسے دیکھوں اسے ٹوٹتے بکھرتے ہوئے کبھی تو ذہن کے پردے پہ نقش ابھرے گا یہ سوچتا ہوں تصور میں رنگ بھرتے ہوئے ہر اک مقام پہ طوفان نے دبوچ لیا جہاں جہاں بھی چھپا آندھیوں سے ...

    مزید پڑھیے

    دست امکاں میں کوئی پھول کھلایا جائے

    دست امکاں میں کوئی پھول کھلایا جائے خیمۂ خواب میں تعبیر کو لایا جائے آؤ چلتے ہیں کسی اور ہی دنیا میں جہاں خود کو غم کر کے کسی اور کو پایا جائے دل میں وحشت جو نہیں دشت نوردی کیسی بے خودی چھوڑ کے اب ہوش میں آیا جائے جس کا ہر گوشہ سسکتا ہے صدا دیتا ہے اس علاقے میں کبھی لوٹ کے جایا ...

    مزید پڑھیے

    خلاف ساری لکیریں تھیں ہاتھ ملتے کیا

    خلاف ساری لکیریں تھیں ہاتھ ملتے کیا جمی تھی چہرے پہ گرد آئنہ بدلتے کیا ہوائیں راہ میں ڈیرا جمائے بیٹھی تھیں چراغ دل کو لیے دو قدم بھی چلتے کیا یگوں سے جسم کے اندر الاؤ روشن ہے کسی کی آنچ سے میرے حواس جلتے کیا چلی وہ آندھی کہ جنگل بھی کانپ کانپ اٹھا کہ ہم تو شاخ سے ٹوٹے تھے پھر ...

    مزید پڑھیے

    کیا کوئی یاد ترے دل کو دکھاتی ہے ہوا

    کیا کوئی یاد ترے دل کو دکھاتی ہے ہوا سرد سناٹے میں کیوں شور مچاتی ہے ہوا یہ خبر دی ہے پرندوں نے چلو سنتے ہیں جھیل کے پاس کوئی گیت سناتی ہے ہوا باغ مرجھائے چمن رویا ہوئے دشت اداس سب کو مایوس کہاں چھوڑ کے جاتی ہے ہوا خوشبوؤں آؤ ٹھہر جاؤ ہمارے آنگن پھر اشاروں میں بہاروں کو بلاتی ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    جنگل کی لکڑیاں

    پہاڑی راستوں پر لکڑیوں کی گٹھریاں سر پر سنبھالے جا رہا ہے آدی واسی عورتوں کا قافلہ یہ قافلہ کچھ دور جا کر گاؤں کے بازار میں ٹھہرے گا اور پھر لکڑیاں سر سے اتاری جائیں گی خوب صورت جنگلوں سے کاٹ کر لائی گئی یہ لکڑیاں بازار کی زینت بنیں گی لکڑیوں کا بوجھ ڈھو کر لانے والی عورتیں خاموش ...

    مزید پڑھیے

    شام کی اڑان

    شام کے سرمئی اندھیرے میں اک پرندہ اڑان بھرتا ہے چاہتا ہے کسی کا ساتھ ملے رات کی بے قراریوں کا عذاب یاد کر کے وہ کانپ اٹھتا ہے اس لیے شام کے دھندلکے میں گھونسلے کو وہ چھوڑ دیتا ہے اور مسلسل سفر میں رہتا ہے لیکن اس کا سفر سدا کی طرح تشنگی کا عذاب سہتا ہے

    مزید پڑھیے

    ندی کو دیکھ کر

    ندی کے حال کو اب دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ندی کا ایک ماضی تھا نہ جانے کتنی تاریخی کتابوں میں ندی کی اہمیت کے ان گنت ابواب روشن ہیں ندی تہذیب کا مسکن رہی ہے اسی کی موج نے آغاز میں انسان کو واقف کرایا ارتقائی مرحلوں سے اسی کے صاف اور شفاف پانی نے یگوں تک مختلف نسلوں کی دل سے آبیاری ...

    مزید پڑھیے

    تیری آواز

    راہ میں چلتے ہوئے بھیڑ سے اکتائے ہوئے تیری آواز سنی میں نے کئی سال کے بعد سوچ کر ذہن پریشان رہا دیر تلک شہر کے شور خرافات کے ہنگاموں میں تیری آواز جو آئی تو کہاں سے آئی پھر کسی وہم کے نرغے میں تو میں آ نہ گیا تیری آواز کا سرگم کہیں دھوکا تو نہیں دیر تک ذہن سوالات میں الجھا ہی ...

    مزید پڑھیے