زمانہ گزرا ہے لہروں سے جنگ کرتے ہوئے
زمانہ گزرا ہے لہروں سے جنگ کرتے ہوئے
کبھی تو پار لگوں ڈوبتے ابھرتے ہوئے
بڑے ہی شوق سے اک آشیاں بنایا تھا
میں کیسے دیکھوں اسے ٹوٹتے بکھرتے ہوئے
کبھی تو ذہن کے پردے پہ نقش ابھرے گا
یہ سوچتا ہوں تصور میں رنگ بھرتے ہوئے
ہر اک مقام پہ طوفان نے دبوچ لیا
جہاں جہاں بھی چھپا آندھیوں سے ڈرتے ہوئے
وہ بوند بوند قیامت وہ نور نور بدن
کسی نے دیکھا ہی کب ہے اسے سنورتے ہوئے
وہ میری ذات سے اب بد گماں نہیں شاید
تبھی تو دیکھ نہیں سکتا مجھ کو مرتے ہوئے