معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہے بھی نہیں بھی
معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہے بھی نہیں بھی میرے لیے ہونٹوں پہ دعا ہے بھی نہیں بھی مدت ہوئی اس راہ سے گزرے ہوئے اس کو آنکھوں میں وہ نقش کف پا ہے بھی نہیں بھی منہ کھول کے بولا نہیں جاتا کہ شفا دے اس پاس مرے دل کی دوا ہے بھی نہیں بھی کہتے تھے کبھی ہم کہ خدا ہے تو کہاں ہے اب سوچ رہے ہیں کہ ...