راشد آذر کی نظم

    آبلہ

    وہ رات کتنی عجیب تھی کٹ نہیں رہی تھی کہ وقت ہی جیسے رک گیا تھا زبان چپ تھی نگاہیں اک داستان محرومیٔ تمنا سنا رہی تھیں بساط آغوش بجھ گئی تھی ہمارا ہی انتظار تھا فرش دل بری کو مگر ہم اپنی شرافت نفس کی گراں باریوں سے مجبور ہو گئے تھے خود اپنی فطرت سے اس قدر دور ہو گئے تھے کہ دل کی آواز ...

    مزید پڑھیے

    بے بسی

    یہ جینا کیا یہ مرنا کیا کچھ بھی تو ہمارے بس میں نہیں اک جال بچھا ہے خواہش کا اور دل ہے کہ پھیلا جاتا ہے ہم بچنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں پھنستے جاتے ہیں یہ ریگ روان عمر ہی کچھ ایسی ہے کہ دھنستے جاتے ہیں جب ریت ہمارے پیروں کے نیچے سے کھسکنے لگتی ہے دنیا کی تمنا بجھتی ہوئی آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    ان چاہی موت

    فاصلہ جب تمہارے مرے درمیاں کا ذرا بڑھ گیا تو تمہاری جدائی کے احساس کی گرم بوندیں مری منتظر چشم بے خواب سے رات بھر قطرہ قطرہ ٹپکتی رہیں صبح تک کروٹیں میرے بستر پہ جلتی رہیں آگ سی خون کے ساتھ میرے بدن میں دہکتی رہی یاد کی شمع کمرے میں شب بھر سلگتی رہی اور تمہارا نشہ میری نس نس ...

    مزید پڑھیے

    رات کے سائے

    میزوں کے شیشوں پر بکھرے خالی جام کے گیلے حلقے سگریٹوں کے دھوئیں کے چھلے دیواروں پر ٹوٹ چلے ہیں سارا کمرہ دھواں دھواں ہے ساری فضا ہے مہکی مہکی دو اک دھندلے دھندلے سر ہیں جھکے ہوئے بے سدھ ہاتھوں پر رات کا نشہ ٹوٹ رہا ہے جب آئے تھے اس محفل میں نئے پرانے سب ساتھی تھے کون کسے پہچانے گا ...

    مزید پڑھیے

    وقت وقت کی بات ہے

    وہی ہم تھے کہ اس شہر سکوں میں رت جگوں کی دھوم تھی ہم سے وہی ہم ہیں کہ شہر بے اماں کی بھیڑ میں خود اپنی تنہائی پہ حیراں ہیں ہمارا جبر مجبوری ہمیں جب صبر آمادہ بناتا ہے تو آنکھیں اس قدر شعلے اگلتی ہیں کہ خاموشی بھی اک شور فغاں معلوم ہوتی ہے

    مزید پڑھیے

    تم اپنی آنکھوں کو بند کر لو

    تمہاری آنکھیں جو میری آنکھوں میں بس گئی ہیں وہ صبح سے شام تک مرے ساتھ گھومتی ہیں وہ رات بھر میری نیند سے چور بند آنکھوں میں جاگتی ہیں میں صبح آئینہ دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں سے جھانکتی ہیں مجھے ہر اک بات پر کچھ اس طرح ٹوکتی ہیں کہ جیسے میں ایک طفل ناداں ہوں جانتا ہی نہیں زمانے کے ...

    مزید پڑھیے

    مجھے خاموش کر دو

    بہت بکنے لگا ہے یہ دل حسرت زدہ اب تو کہیں ایسا نہ ہو کچھ راز کی باتیں بھی کہہ جائے مگر اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے مرے منہ کھولتے ہی تم مجھے چپ شاہ کے روزے کی چپکے سے قسم دے کر زباں کا بت مرے ہونٹوں کی محرابوں میں رکھ دو اور مجھے خاموش کر دو

    مزید پڑھیے

    حدود کا دائرہ

    شجر حجر ہوں کہ انساں ہوں یا ستارے ہوں سبھی حدود کے اک دائرے میں رہتے ہیں یہ کائنات زمان و مکاں کی قید میں ہے ہر ایک شے ہے عروج و زوال کی پابند ہر ایک منزل آخر ہے منزل اول جہاں سے اک نئی منزل کی جستجو میں سبھی حقیقتوں کو تخیل کا رنگ دیتے ہیں سفر میں رک نہیں سکتے قدم مسافر کے زمیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    شاید

    میں تو ہر رات یہی سوچ کے سوتا ہوں کہ کل صبح شاید ترے دیدار کا سورج نکلے اور ہر روز ترے خواب لیے آنکھوں میں در بہ در گھومتا پھرتا ہوں کہ دن کٹ جائے اور پھر رات کو جب لوٹ کے آؤں گھر کو منتظر ہو ترا پیکر مرے دروازے پر یا تو پھر کل کی طرح رات گزر جائے مری اور جب صبح کو جاگوں تو تجھی کو ...

    مزید پڑھیے

    خود احتسابی

    کبھی کبھی میں جب اپنے اندر سے جھانکتا ہوں تو میرے باہر کی ساری دنیا مرے مقابل کھڑا ہوا ظالموں کا لشکر دکھائی دیتی ہے اور میں خود کو اپنے باہر کے آدمی کو عجیب سی بے تعلقی سے اک اجنبی بن کے دیکھتا ہوں مگر وہ باہر کا میں اسی ظالموں کے لشکر سے ہے نبرد آزما مسلسل کبھی وہ ظالم پہ حملہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2