خوددارئ حیات کو رسوا نہیں کیا
خوددارئ حیات کو رسوا نہیں کیا ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا جاں سے عزیز تھا ہمیں دستار کا وقار ظالم کو سر تو دے دیا سجدہ نہیں کیا پھر لب پہ تیرے کلمۂ افسوس کس لیے میں نے تو تیرے جبر کا شکوہ نہیں کیا منڈلا رہا ہے آج جو ساحل کے ارد گرد طوفان کو تو تم نے اشارہ نہیں کیا اس کے رخ ...