موت کا امتیاز کرتا رہا
موت کا امتیاز کرتا رہا عمر اپنی تمام کرتا رہا پہلے لکھوں غزل محبت کو اور پھر اس کو عام کرتا رہا ایک تنہائی بس گئی دل میں اور میں اس میں قیام کرتا رہا میں نے جو کچھ کمایا الفت میں وہ بس اک ترے نام کرتا رہا
موت کا امتیاز کرتا رہا عمر اپنی تمام کرتا رہا پہلے لکھوں غزل محبت کو اور پھر اس کو عام کرتا رہا ایک تنہائی بس گئی دل میں اور میں اس میں قیام کرتا رہا میں نے جو کچھ کمایا الفت میں وہ بس اک ترے نام کرتا رہا
ترے بن کس طرح بسر ہوگی اس شب غم کی کیا سحر ہوگی اتنا مایوس ہوں جدائی سے وہ بھی مایوس کس قدر ہوگی زندگی ہو کہ رات ہو یارو اک نہ اک روز تو سحر ہوگی یوں ہی دن بھر پھریں گے آوارہ یہی تدبیر رات بھر ہوگی رشکؔ دنیا کو دیکھنے والی تیری شاید نئی نظر ہوگی