موت کا امتیاز کرتا رہا

موت کا امتیاز کرتا رہا
عمر اپنی تمام کرتا رہا


پہلے لکھوں غزل محبت کو
اور پھر اس کو عام کرتا رہا


ایک تنہائی بس گئی دل میں
اور میں اس میں قیام کرتا رہا


میں نے جو کچھ کمایا الفت میں
وہ بس اک ترے نام کرتا رہا