Rajinder Manchanda Bani

راجیندر منچندا بانی

جدید اردو غزل کی طاقت ور ترین آوازوں میں شامل

One of the most powerful voices of the post-independence Urdu ghazal

راجیندر منچندا بانی کی غزل

    ذرا سا امکان کس قدر تھا

    ذرا سا امکان کس قدر تھا فضا میں ہیجان کس قدر تھا میں کس قدر تھا قریب اس کے وہ میری پہچان کس قدر تھا لباس پر تھا ذرا سا اک داغ بدن پریشان کس قدر تھا یہی کہ اس سے کبھی نہ ٹوٹے ہمیں کہ اک دھیان کس قدر تھا نہ جانے کیا لوگ بچھڑے ہوں گے وہ موڑ سنسان کس قدر تھا وہ سارے غم کیا ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    چلی ڈگر پر کبھی نہ چلنے والا میں

    چلی ڈگر پر کبھی نہ چلنے والا میں نئے انوکھے موڑ بدلنے والا میں تم کیا سمجھو عجب عجب ان باتوں کو آگ کہیں ہو یہاں ہوں جلنے والا میں بہت ذرا سی اوس بھگونے کو میرے بہت ذرا سی آنچ، پگھلنے والا میں بہت ذرا سی ٹھیس تڑپنے کو میرے بہت ذرا سی موج، اچھلنے والا میں بہت ذرا سا سفر بھٹکنے ...

    مزید پڑھیے

    نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا

    نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا عتاب تھا کسی لمحے کا اک زمانے پر کسی کو چین نہ باہر تھا اور نہ گھر میں تھا چھپا کے لے گیا دنیا سے اپنے دل کے گھاؤ کہ ایک شخص بہت طاق اس ہنر میں تھا کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا کہ میرے ساتھ کوئی اور ...

    مزید پڑھیے

    بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا

    بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا کہ لمحہ لاکھ امکانات کا تھا بچا لی تھی ضیا اندر کی اس نے وہی اک آشنا اب رات کا تھا رفاقت کیا کہاں کے مشترک خواب کہ سارا سلسلہ شبہات کا تھا بگولے اس کے سر پر چیختے تھے مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا حنائی ہاتھ کا منظر تھا بانیؔ کہ تابندہ ورق اثبات کا تھا

    مزید پڑھیے

    دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا

    دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے ملے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا تری ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں خاک سی اڑتی ہے کیا نہ جانے کیا

    دلوں میں خاک سی اڑتی ہے کیا نہ جانے کیا تلاش کرتی ہے پل پل ہوا نہ جانے کیا ذرا سا کان لگا کے کبھی سنو گئے رات کہیں سے آتی ہے گم صم صدا نہ جانے کیا مسافروں کے دلوں میں عجب خزانے تھے زیاں سفر تھا مگر راستہ نہ جانے کیا وہ کہہ رہا تھا نہ جھانکوں گا آج صبح اس میں مجھے دکھائے یہی آئینہ ...

    مزید پڑھیے

    خاک و خوں کی وسعتوں سے با خبر کرتی ہوئی

    خاک و خوں کی وسعتوں سے با خبر کرتی ہوئی اک نظر امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی اک عجب بے چین منظر آنکھ میں ڈھلتا ہوا اک خلش سفاک سی سینے میں گھر کرتی ہوئی اک کتاب صد ہنر تشریح زائل کا شکار ایک مہمل بات جادو کا اثر کرتی ہوئی جسم اور اک نیم پوشیدہ ہوس آمادگی آنکھ اور سیر لباس ...

    مزید پڑھیے

    مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

    مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے مری صدا نہ سہی ہاں مرا لہو نہ سہی یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے کہیں نہ آخری جھونکا ہو مٹتے رشتوں کا یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا ...

    مزید پڑھیے

    تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے

    تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے میں جانتا ہوں ترا در کھلا ہے میرے لیے مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو مگر سفر کا تقاضا جدا ہے میرے لیے وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا تمام عمر کا اب سلسلہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    اے بجھے رنگوں کی شام اب تک دھواں ایسا نہ تھا

    اے بجھے رنگوں کی شام اب تک دھواں ایسا نہ تھا آج گھر کی چھت سے دیکھا آسماں ایسا نہ تھا کب سے ہے گرتے ہوئے پتوں کا منظر آنکھ میں جانے کیا موسم ہے خوابوں کا زیاں ایسا نہ تھا کوئی شے لہرا ہی جاتی تھی فصیل شب کے پار دور افق میں دیکھنا کچھ رائیگاں ایسا نہ تھا پیڑ تھے سائے تھے پگڈنڈی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5