Rajesh Reddy

راجیش ریڈی

سماجی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والے مقبول عام شاعر

Popular poet depicting social realities

راجیش ریڈی کی غزل

    سنا ہے یہ جہاں اچھا تھا پہلے

    سنا ہے یہ جہاں اچھا تھا پہلے یہ جو اب دشت ہے دریا تھا پہلے جو ہوتا کون آتا اس جہاں میں کسے دنیا کا اندازہ تھا پہلے بڑی تصویر لٹکا دی ہے اپنی جہاں چھوٹا سا آئینہ تھا پہلے سمجھ میں کچھ نہیں آتا اب اس کی وہ جو اوروں کو سمجھاتا تھا پہلے کیا ایجاد جس نے بھی خدا کو وہ خود کو کیسے ...

    مزید پڑھیے

    جانے کتنی اڑان باقی ہے

    جانے کتنی اڑان باقی ہے اس پرندے میں جان باقی ہے جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں اب تو بس آسمان باقی ہے اب وہ دنیا عجیب لگتی ہے جس میں امن و امان باقی ہے امتحاں سے گزر کے کیا دیکھا اک نیا امتحان باقی ہے سر قلم ہوں گے کل یہاں ان کے جن کے منہ میں زبان باقی ہے

    مزید پڑھیے

    ہے کوئی بیر سا اس کو مری تدبیر کے ساتھ

    ہے کوئی بیر سا اس کو مری تدبیر کے ساتھ اب کہاں تک کوئی جھگڑا کرے تقدیر کے ساتھ مرے ہونے میں نہ ہونے کا تھا ساماں موجود ٹوٹنا میرا لکھا تھا مری تعمیر کے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں حقیقت کے جہاں میں ہمیں پھر خواب آتے ہی کہاں ہمیں کبھی تعبیر کے ساتھ آدمی ہی کے بنائے ہوئے زنداں ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    اجازت کم تھی جینے کی مگر مہلت زیادہ تھی

    اجازت کم تھی جینے کی مگر مہلت زیادہ تھی ہمارے پاس مرنے کے لیے فرصت زیادہ تھی تعجب میں تو پڑتا ہی رہا ہے آئنہ اکثر مگر اس بار اس کی آنکھوں میں حیرت زیادہ تھی بلندی کے لیے بس اپنی ہی نظروں سے گرنا تھا ہماری کم نصیبی ہم میں کچھ غیرت زیادہ تھی جواں ہونے سے پہلے ہی بڑھاپا آ گیا ہم ...

    مزید پڑھیے

    رنگ موسم کا ہرا تھا پہلے

    رنگ موسم کا ہرا تھا پہلے پیڑ یہ کتنا گھنا تھا پہلے میں نے تو بعد میں توڑا تھا اسے آئینہ مجھ پہ ہنسا تھا پہلے جو نیا ہے وہ پرانا ہوگا جو پرانا ہے نیا تھا پہلے بعد میں میں نے بلندی کو چھوا اپنی نظروں سے گرا تھا پہلے

    مزید پڑھیے

    دروازے کے اندر اک دروازہ اور

    دروازے کے اندر اک دروازہ اور چھپا ہوا ہے مجھ میں جانے کیا کیا اور کوئی انت نہیں من کے سونے پن کا سناٹے کے پار ہے اک سناٹا اور کبھی تو لگتا ہے جتنا ہے کافی ہے اور کبھی لگتا ہے اور ذرا سا اور سچ کہنے پر خوش ہونا تو دور رہا کیا زمانے نے مجھ کو شرمندہ اور عجب مسافر ہوں میں میرا سفر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تو نے لہو لے کے دیا کچھ بھی نہیں

    زندگی تو نے لہو لے کے دیا کچھ بھی نہیں تیرے دامن میں مرے واسطے کیا کچھ بھی نہیں آپ ان ہاتھوں کی چاہیں تو تلاشی لے لیں میرے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہم نے دیکھا ہے کئی ایسے خداؤں کو یہاں سامنے جن کے وہ سچ مچ کا خدا کچھ بھی نہیں یا خدا اب کے یہ کس رنگ میں آئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    یوں دیکھیے تو آندھی میں بس اک شجر گیا

    یوں دیکھیے تو آندھی میں بس اک شجر گیا لیکن نہ جانے کتنے پرندوں کا گھر گیا جیسے غلط پتے پہ چلا آئے کوئی شخص سکھ ایسے میرے در پہ رکا اور گزر گیا میں ہی سبب تھا اب کے بھی اپنی شکست کا الزام اب کی بار بھی قسمت کے سر گیا

    مزید پڑھیے

    یہ کب چاہا کہ میں مشہور ہو جاؤں

    یہ کب چاہا کہ میں مشہور ہو جاؤں بس اپنے آپ کو منظور ہو جاؤں نصیحت کر رہی ہے عقل کب سے کہ میں دیوانگی سے دور ہو جاؤں نہ بولوں سچ تو کیسا آئینہ میں جو بولوں سچ تو چکنا چور ہو جاؤں ہے میرے ہاتھ میں جب ہاتھ تیرا عجب کیا ہے جو میں مغرور ہو جاؤں بہانہ کوئی تو اے زندگی دے کہ جینے کے لئے ...

    مزید پڑھیے

    جو کہیں تھا ہی نہیں اس کو کہیں ڈھونڈھنا تھا

    جو کہیں تھا ہی نہیں اس کو کہیں ڈھونڈھنا تھا ہم کو اک وہم کے جنگل میں یقیں ڈھونڈھنا تھا پہلے تعمیر ہمیں کرنا تھا اچھا سا مکاں پھر مکاں کے لئے اچھا سا مکیں ڈھونڈھنا تھا سب کے سب ڈھونڈتے پھرتے تھے اسے بن کے ہجوم جس کو اپنے میں کہیں اپنے تئیں ڈھونڈھنا تھا جستجو کا اک عجب سلسلہ تا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4