ہو بزدلی کا بہانا تو صبر کیا ٹوٹے
ہو بزدلی کا بہانا تو صبر کیا ٹوٹے اگر ہے ضبط تو اب اس کی انتہا ٹوٹے نئے چراغ جلیں دھندھ کی ردا ٹوٹے یہ میرے خواب تھے لیکن یہ بارہا ٹوٹے مری طلب میں کمی ہے نہ حوصلوں میں مگر یہ حسرتوں کی تمنا ہے دل مرا ٹوٹے ہے بے رخی بھی تری کچھ تو آندھیوں کی طرح چراغ دل کی میرے جس میں التجا ...