غیر ممکن ہے کہ توہین وفا ہو جاؤں

غیر ممکن ہے کہ توہین وفا ہو جاؤں
میں تو مر جاؤں اگر اس سے جدا ہو جاؤں


میں ترے عشق میں برباد ہوں مجروح بھی ہوں
اور کیا تو ہی بتا اس کے سوا ہو جاؤں


مری حسرت ہے کہ آغوش میں لے لوں تجھ کو
یا ترے جسم سے لپٹے وہ ردا ہو جاؤں


اپنی بربادی کا الزام لگاؤں کس پر
کوئی اپنا تو رہے جس سے خفا ہو جاؤں


میرے بچپن کی وہ خواہش بھی نہیں بدلی ہے
یہ مرے دل کی تمنا تھی بڑا ہو جاؤں


وہ مری موت پہ آئے کوئی خاطر تو کرو
میں جنازے سے کیا خود اٹھ کے کھڑا ہو جاؤں