در حقیقت ہے یہ سازش حادثہ کہنے کو ہے

در حقیقت ہے یہ سازش حادثہ کہنے کو ہے
اب ہمارے پاس کیا اس کے سوا کہنے کو ہے


کیا جنوں ہے راہ منزل میں چبھے ہر خار کو
پاؤں کا ہر آبلہ بھی مرحبا کہنے کو ہے


ہم کو ہے تسلیم تیری بات لیکن جان لے
یہ سراسر ضد ہے تیری التجا کہنے کو ہے


یہ ترے تیر نظر اس پہ تری ظلمی ادا
دل کا ہر اک زخم تیرا شکریہ کہنے کو ہے


اب تو یہ طوفاں تھمے یا پھر مقدر ساتھ دے
سب امیدیں ہیں خدا سے نا خدا کہنے کو ہے


انجمن میں ہے توجہ سب کی یوں تیری طرف
رازؔ تو کیا کہہ رہا ہے اور کیا کہنے کو ہے