Rais Farogh

رئیس فروغ

نئی غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

One of the most outstanding Pakistani poets of new ghazal.

رئیس فروغ کی غزل

    یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا

    یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا یہ سوچتے ہیں کہ اس بار ہم سے ملنے کو وہ اپنے بال کس انداز میں سنوارے گا شکایتیں ہی کرے گا کہ خود غرض نکلے وہ دل میں کوئی بلٹ تو نہیں اتارے گا یہی بہت ہے کہ وہ خود نکھرتا جاتا ہے کسی خیال کا چہرہ تو کیا نکھارے گا یہی ...

    مزید پڑھیے

    شہر کا شہر بسا ہے مجھ میں

    شہر کا شہر بسا ہے مجھ میں ایک صحرا بھی سجا ہے مجھ میں کئی دن سے کوئی آوارہ خیال راستہ بھول رہا ہے مجھ میں رات مہکی تو پھر آنکھیں مل کے کوئی سوتے سے اٹھا ہے مجھ میں دھوپ ہے اور بہت ہے لیکن چھاؤں اس سے بھی سوا ہے مجھ میں کب سے الجھے ہیں یہ چہروں کے ہجوم کون سا جال بچھا ہے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    جنگل سے آگے نکل گیا

    جنگل سے آگے نکل گیا وہ دریا کتنا بدل گیا کل میرے لہو کی رم جھم میں سورج کا پہیا پھسل گیا چہروں کی ندی بہتی ہے مگر وہ لہر گئی وہ کنول گیا اک پیڑ ہوا کے ساتھ چلا پھر گرتے گرتے سنبھل گیا اک آنگن پہلے چھینٹے میں بادل سے اونچا اچھل گیا اک اندھا جھونکا آیا تھا اک عید کا جوڑا مسل ...

    مزید پڑھیے

    پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی

    پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی ابر کی اوٹ میں کہیں نرم سی دستکیں ہوئیں ساتھ ہی کوئی در کھلا پھر مجھے نیند آ گئی رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی اور ہی ایک سمت سے اور ہی اک مقام پر گرد نے شہر کو ...

    مزید پڑھیے

    راتوں کو دن کے سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں

    راتوں کو دن کے سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں برسوں بعد اسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے اور بدن کی ساری چاندی چھپی ہوئی تھی سونے میں دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر میں تو صرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں گھر ...

    مزید پڑھیے

    گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا

    گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا میں دیا بن کے جھلملائے گیا کل کسی اجنبی کا حسن مجھے یاد آیا تو یاد آئے گیا کوئی گھائل زمیں کی آنکھوں میں نیند کی کونپلیں بچھائے گیا سفر عشق میں بدن اس کا دور سے روشنی دکھائے گیا اپنی لہروں میں رنج کا موسم آنسوؤں کے کنول کھلائے گیا شہر کا ایک برگ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر

    اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر باتوں کے لیے شکوۂ موسم ہی بہت ہے کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سنا کر سونے دے انہیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر تو ...

    مزید پڑھیے

    گیت کے بعد بھی گائے جاؤں

    گیت کے بعد بھی گائے جاؤں اپنی آواز سنائے جاؤں کوئی ایسا ہو کہ دیکھے جائے میں جہاں تک نظر آئے جاؤں اس ہوس میں کہ اندھیرا نہ رہے گھر میں جو کچھ ہے جلائے جاؤں پھیلتی جائے خموشی مجھ میں اور میں شور مچائے جاؤں اپنی آنکھوں کو شب و روز فروغؔ خواب ہی خواب دکھائے جاؤں

    مزید پڑھیے

    سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے

    سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے نشے میں ڈگمگا کے نہ چل سیٹیاں بجا شاید کوئی چراغ اتر آئے بام سے دم کیا لگا لیا ہے کہ سارے دکان دار چکھنے میں لگ رہے ہیں مجھے ترش آم سے غصے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے میں بھی بھرا ہوا ہوں بہت انتقام سے دشمن ...

    مزید پڑھیے

    اپنی مٹی کو سرافراز نہیں کر سکتے

    اپنی مٹی کو سرافراز نہیں کر سکتے یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر تیری چاہت کو سبو تاژ نہیں کر سکتے حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے شہر میں ایک ذرا سے کسی گھر کی خاطر اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4