پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی

پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی
دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی


ابر کی اوٹ میں کہیں نرم سی دستکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کھلا پھر مجھے نیند آ گئی


رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی


اور ہی ایک سمت سے اور ہی اک مقام پر
گرد نے شہر کو چھوا پھر مجھے نیند آ گئی


اپنے ہی ایک روپ سے تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا پھر مجھے نیند آ گئی


تو کہیں آس پاس تھا وہ ترا التباس تھا
میں اسے دیکھتا رہا پھر مجھے نیند آ گئی


ایک عجب فراق سے ایک عجب وصال تک
اپنے خیال میں چلا پھر مجھے نیند آ گئی